وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِيهِ مِن شَيْءٍ فَحُكْمُهُ إِلَى اللَّهِ ۚ ذَٰلِكُمُ اللَّهُ رَبِّي عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ أُنِيبُ
تمہارے درمیان جو بھی اختلاف ہے اس کا فیصلہ اللہ ہی کرے گا، وہی ” اللہ“ میرا رب ہے اسی پر میں بھروسہ کرتا اور اسی کی طرف میں رجوع کرتا ہوں
وہ حکم خدا ہے ف 2: جب اس حقیقت کا اظہار فرمایا ہے ۔ کہ اختلاف تھا تو بالکل طبعی اور فطری بات ہے تو سوا ل پیدا ہوتا تھا ۔ کہ کیا پھر فیصلہ کی کوئی صورت نہیں اور کیا حق وباطل میں کوئی امتیاز نہیں معلوم ہوسکتا ۔ اس کا جواب دیا ہے کہ فیصلہ کی صورت یہ ہے ۔ کہ اللہ کے حکم کو مان لیا جائے ۔ اور اپنے ذاتی خیالات اور افکار کو ترجیح نہ دیجائے ۔ کیونکہ سارے جھگڑے اس وقت پیدا ہوتے ہیں ۔ جب ہر شخص اپنی ذاتی رائے پر ناز کرے اور اپنے سے برتر عقل والے کے سامنے سرنیاز نہ جھکائے اور اگر ہر شخص بطور اصول وضوابط اس حقیقت کو اپنے شامنے رکھے کہ ہمیں اپنی عقل ودانش پر اعتماد نہیں ۔ ہم اپنے ااحبارورہبان کی شخصیت کو کوئی اہمیت نہیں ہے ۔ ہم براہ راست ہر معاملہ میں اللہ کی اطاعت کا تہد کرتے ہیں ۔ اور اس کے علموں کو بلا شرط وقید تسلیم کرتے ہیں ۔ تو پھر اختلافات فورا دور ہوسکتے ہیں اور خیالات میں وحدت پیدا ہوسکتی ہے فرمایا کہ یہ تمہارا جو حکم ہے وہ انسان کی ذہنی وفکری مشکلات میں آخری وجہ استشہاد ہے ۔ یہی میرا پروردگار ہے ۔ میں اسی پر بھروسہ رکھتا ہوں ۔ اور اسی کی جانب تمام توجہات کلی سے جھکتا ہوں *۔