سورة فصلت - آیت 50

وَلَئِنْ أَذَقْنَاهُ رَحْمَةً مِّنَّا مِن بَعْدِ ضَرَّاءَ مَسَّتْهُ لَيَقُولَنَّ هَٰذَا لِي وَمَا أَظُنُّ السَّاعَةَ قَائِمَةً وَلَئِن رُّجِعْتُ إِلَىٰ رَبِّي إِنَّ لِي عِندَهُ لَلْحُسْنَىٰ ۚ فَلَنُنَبِّئَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِمَا عَمِلُوا وَلَنُذِيقَنَّهُم مِّنْ عَذَابٍ غَلِيظٍ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

مگر جونہی تکلیف کے بعد ہم اسے اپنی رحمت سے نوازتے ہیں تو کہتا ہے کہ میں اسی کا حقدار تھا اور میں نہیں سمجھتا کہ قیامت آئے گی، اگر بالفرض میں اپنے رب کی طرف لٹایا گیا تو وہاں بھی میر انجام بہتر ہوگا۔ حالانکہ کفر کرنے والوں کو یقیناً ہم بتا کر رہیں گے کہ وہ کیا کر کے آئے ہیں اور انہیں ہم بڑے سخت عذاب کا مزہ چکھائیں گے

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

حل لغات :۔ حریض ۔ چوڑی لمبی پھیلاؤ زیادہ ہو ۔ شقاق ۔ مخالفت اور عناد کرنا ۔ الافاق ۔ افق کی جمع ہے یعنی کنارہ آسمان ۔ اطراف عالم ۔ مراد دنیا *۔ قرآن حکیم میں ایک بڑی خوبی یہ ہے ۔ کہ یہ ان تمام نفسیاتی کمزوریوں سے آگاہ ہے جو انسان میں پائی جاتی ہیں ۔ اور ایک ایک کرکے ان سب چیزوں کو بیان کرتا ہے ۔ تاکہ لغزش کے تمام مواقع اسے معلوم ہیں ۔ اور وہ کسی حالت میں بھی سچی راہنمائی سے محروم نہ رہے ۔ فرمایا : کہ یہ انسان اپنی فلاح وبہبود کے لئے ہمیشہ دست بدعا رہتا ہے ۔ اور ترقی کی خواہس سے اس کا کبھی جی نہیں بھرتا ۔ پھر جب اس کی توقعات کے خلاف ہوتا ہے اور اگر تکلیف کے بعد پھر اللہ آسائش وتنعم کے سامان مہیا کردے ۔ تو کبرونخوت کے مرض میں مبتلا ہوکر کہنے لگتا ہے ۔ کہ یہ مصب متاع راحت میری عقلمندی اور مساعی کا نتیجہ ہے ۔ اور یہ قیامت کا مسئلہ محض ڈھکو سلہ ہے ۔ میں اپنے اعمال کے لئے اللہ کے سامنے جواب دہ نہیں ہوں ۔ اور اگر وہاں جانا پڑا ۔ تو بہرآئنہ وہاں بھی اچھی ہی جگہ مل کر رہے گی ۔ ارشاد فرمایا ۔ کہ یہ وہم باطل ہے وہاں سرمایہ داری کا اختیار نہ ہوگا ۔ وہاں صرف اعمال دیکھے جائیں گے ۔ اور اسے لوگ جو سرمایہ داری کے نشہ میں اللہ کا انکار کردیتے ہیں شدید ترین عذاب کے مستحق ہونگے ۔ اور ان میں سے کوئی رعایتی سلوک نہیں روارکھا جائیگا