وَمَا يَسْتَوِي الْأَعْمَىٰ وَالْبَصِيرُ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَلَا الْمُسِيءُ ۚ قَلِيلًا مَّا تَتَذَكَّرُونَ
اور یہ نہیں ہوسکتا کہ اندھا اور بینا برابر ہوجائیں، اور صالح اعمال کرنے والا ایماندار اور نہ بدکار برابر ٹھہریں، مگر تم لوگ بہت کم نصیحت حاصل کرتے ہو۔
(ف 2) یعنی جس طرح اندھا اور آنکھوں والا برابر نہیں ہیں ۔ اس طرح مومن اور منکر برابر نہیں ہیں ۔ مومن بصیرت والا ہوتا ہے ۔ اس کا وجدان زیادہ مجلی اور پاکیزہ ہے ۔ وہ بےپناہ دانش وخرد کا مالک ہے ۔ وہ حقائق کو دیکھتا اور محسوس کرتا ہے اور اس نوع کے شکوک اس کے دل میں کبھی پیدا نہیں ہوتے کہ یہ عالم انسانی دوبارہ وجود پذیر ہوسکے گا یا نہیں ۔ منکر اندھا ہوتا ہے وہ بصیرت سے محروم اور جاہل واحمق اس درجہ مبتلا ہوتا ہے کہ دین کی معمولی اور ادنی باتوں کو بھی نہیں سمجھ پاتا ۔ یہاں منکر کے لئے الْمُسِيءُ کا لفظ استعمال فرمایا ہے ۔ یعنی ایسا آدمی جس کا کفر وانکار دنیا والوں کے لئے ایک برائی اور تکلیف ہے ۔یہ اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ مومن خیروبرکت ہوتا ہے اور کائنات کے لئے اس کا وجود ہمہ فلاح وفوز ۔ وہ نہ خود گھاٹے میں رہتا ہے اور نہ اس سے دوسروں کو نقصان پہنچتا ہے ۔