سورة غافر - آیت 37

أَسْبَابَ السَّمَاوَاتِ فَأَطَّلِعَ إِلَىٰ إِلَٰهِ مُوسَىٰ وَإِنِّي لَأَظُنُّهُ كَاذِبًا ۚ وَكَذَٰلِكَ زُيِّنَ لِفِرْعَوْنَ سُوءُ عَمَلِهِ وَصُدَّ عَنِ السَّبِيلِ ۚ وَمَا كَيْدُ فِرْعَوْنَ إِلَّا فِي تَبَابٍ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

جو آسمانوں کے راستے میں۔ میں موسیٰ کے الٰہ کو جھانک کر دیکھوں، مجھے تو موسیٰ جھوٹا معلوم ہوتا ہے، اس طرح فرعون کے لیے اس کی بدعملی خوبصورت بنا دی گئی اور وہ راہ راست سے روک دیا گیا، فرعون کی ساری چال بازی اس کی اپنی تباہی کا باعث ثابت ہوئی

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

میں موسیٰ کے خدا ل کو دیکھنا چاہتا ہوں ف 1: فرعون نے جب دیکھا ۔ کہ موسیٰ کے مشن کو کامیابی ہورہی ہے ۔ اور لوگ خفیہ خفیہ اس کی تعلیمات پر ایمان لارہے ہیں ۔ تو اس کے ازراہ استخفاف ہامان سے کہا کہ یہ موسیٰ کس خدا کی دعوت دیتے ہیں ؟ ذرا ایک بلند معیار وبالا مینار نو تعمیر کرو ۔ میں ابھی تو دیکھوں کہ آسمانوں میں موسیٰ کا خدا کیونکر قرار پذیر ہے ۔ کیا یہ لوگوں کو بتلانا چاہتا تھا ۔ کہ میرے سوا اور کون خدا ہوسکتا ہے ؟ اور اگر کوئی خدا ہے تو وہ آسمانوں میں ہوگا ۔ اور اس کو میری طرح نظر آنا چاہیے ۔ گویا اس بےوقوف نے یہ سمجھا ۔ کہ خدا بھی میری طرح کوئی جسمانی قوت ہے جو مکان وجہت کی محتاج ہے اور جس کو محسوس کیا جاسکتا ہے حالانکہ وہ ذات بےہمت ایسی ذات ہے جس تک ہمارے حواس اور خیال اور قیاس وہ ہم کی رسائی بھی نہیں ہوسکتی ۔ جو عقل وخرد سے بالا اور فہم و فراست سے کہیں برتر ہے ۔ جو گو کہ اعلیٰ درجے کے وصف تحقق سے متصف ہے ۔ مگر اپنے جلال اور جبروت کے سربراہوں میں کچھ اس طرح پنہاں ہیں ۔ کہ آنکھیں اس کو نہیں دیکھ سکتیں ۔ اور پیکر خیال اس تک نہیں پہنچ سکتا ۔ اس کی تجلیات ہر جگہ اور ہر مقام میں موجود ہیں ۔ مگر وہ بذاتہ کسی مکان و زمان سے نسبت احتیاج نہیں رکھتا اس لئے فرعون نے اس کے متعلق اگر یہ سمجھا کہ وہ آسمانوں میں اس نماز میں موجود ہے ۔ کہ میں اس کو دیکھ سکوں گا ۔ یہ تو محض اس کی غلط فہمی تھی ۔ یا وہ عمداً خدا کے وجود کا مضحکہ اڑانا چاہتا تھا ۔ اہل کتاب نے یہاں یہ کہا ہے ۔ کہ جس کا قرآن نے فرعون کے ساتھ ذکر کیا ہے ۔ بہت بھوکا آدمی ہے اور فرعون کے اور اس کے درمیان صدیوں کا فاصلہ حائل ہے ۔ پھر یہ کیونکر تسلیم کرلیا جائے کہ وہ فرعون کے زمانے میں بطور وزیر کے موجود تھا ۔ اور فرعون نے اس سے کہا کہ وہ مینار تعمیر کرادے ۔ جواب یہ ہے کہ فرعون کا زمانہ ایسا زمانہ ہے جو تاریخی نہیں ہے اور کم از کم تو رات سے جس قدر تاریخ کا تعلق ہے ۔ وہ قطعی غیر مستند ہے ۔ سا لئے اس کی روشنی میں قرآن پر محاکر کرنا محض غلط ہے ۔ قرآن بجائے خود ایک مستند اور آخری تاریخ اقوام ہے ۔ یہ اعتراض اس وقت صحیح ہوسکتا ہے ۔ جبکہ کوئی کتاب ایسی موجود ہو ۔ جو ااسشاد میں وہی درجہ رکھتی ہو ۔ جو قرآن حکیم کا ہے ۔ اور پھر اس میں یہ لکھا ہوتا ۔ کہ فرعون کے زمانہ میں ہامان نامی کوئی شخص نہ تھا ۔ اور جب یہ حیثیت نہیں ہے ۔ تو ہم کہہ سکتے ہیں ۔ کہ جو کچھ قرآن نے کہا ہے وہی درست ہے ۔ حل لغات :۔ سلطان ۔ دلیل قاہر ۔ محبت ۔ قدرت * متکبر ۔ مغرور * جبار ۔ سرکش ۔ جابر ۔* الاسباب ۔ ذرائع ۔ راستے ہلاکت وتباہی ۔ زیاں کاری *۔