أَوَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَيَنظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ كَانُوا مِن قَبْلِهِمْ ۚ كَانُوا هُمْ أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً وَآثَارًا فِي الْأَرْضِ فَأَخَذَهُمُ اللَّهُ بِذُنُوبِهِمْ وَمَا كَانَ لَهُم مِّنَ اللَّهِ مِن وَاقٍ
کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں کہ انہیں ان لوگوں کا انجام نظر آئے جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں کہ وہ ان سے زیادہ طاقت ور تھے اور ان سے زیادہ زمین میں نشانات چھوڑ گئے ہیں مگر اللہ نے ان کے گناہوں پر انہیں پکڑ لیا اور انہیں اللہ سے بچانے والا کوئی نہ تھا۔
(ف 1) قابل غور چیز یہ ہے کہ کیونکر انسان ان پتھروں اور زید وو رع کے لاشوں کو خدا سمجھ لیتا ہے ۔ اور کس طرح ان کی عبادت میں اسکو روحانی تسکین حاصل ہوتی ہے ۔ حالانکہ نہ یہ اس کی باتوں کو سن سکیں اور نہ ان کے نعمتہائے عقیدت سے واقفیت حاصل کرسکیں ۔ جو خدا ہماری آواز کو نہیں سنتا اور ہمارے دلی جذبات کو نہیں جانتا وہ کیونکر خدا ہوسکتا ہے ؟ ہم تو فطرتاً ایسا خدا چاہتے ہیں جو غموں اور مصیبتوں میں بغیر نالہ وفریاد اور شیون وبکا کے ہماری دستگیری کرے ۔ اور ہمیں روحانی تسکین عطا کرے ۔ جو براہ راست ہمارے کلیجے کے داغہائے الم کو دیکھتا ہو ۔ اور ہماری پردرد آواز کو سنتا ہو ۔ اور کیوں یہ فرض کرلیتے ہیں کہ یہ پتھر پسیجیں گے اور اپنی غیر معمولی قدرتوں سے ان کی مشکلات کو دور کریں گے ۔ حالانکہ وہ پتھر ہیں بےجان ہیں اور بےحس ہیں ۔ حل لغات: آثَارًا۔ جمع اثر ۔ یعنی اپنی عظمت ورفعت کے مادی نشانات۔ وَاقٍ۔ بچا نیوالا۔