سورة الزمر - آیت 60

وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ تَرَى الَّذِينَ كَذَبُوا عَلَى اللَّهِ وُجُوهُهُم مُّسْوَدَّةٌ ۚ أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوًى لِّلْمُتَكَبِّرِينَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

قیامت کے دن دیکھو گے کہ جن لوگوں نے اللہ پر جھوٹ باندھے ان کے منہ کالے ہوں گے۔ کیا متکبروں کے لیے جہنم کافی نہیں ہے۔ ؟

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

افتراء علی اللہ کا انجام ف 1: اللہ کے متعلق جھوٹ بولنے کے معنے یہ ہیں ۔ کہ وہ لوگ جو اللہ کی طرف منسوب کرتے ہیں ۔ جن سے اس کی ذات عظمت صفات انکار کرتی ہے ۔ وہ گویا غلط باتوں کو غلط عقائد کو اس کی طرف سے پھیلاتے اور مشتہر کرتے ہیں ۔ ان لوگوں کی کیفیت قیامت کے دن یہ ہوگی ۔ کہ ان کے چہرے بےنور ہونگے ۔ اور کفر وشرک کی ظلمت اور سیاہی نے ان کو بدزیب کررکھا ہوگا ۔ کیونکہ وہ دنیا میں اس نوع کے عقائد کی اس لئے اشاعت کرتے تھے ۔ کہ عوام میں ان کی عزت افزائی ہو ۔ اور موحدین کے مقابلہ میں ان کی زیادہ آؤ بھگت ہو ۔ اب مکافات عمل کے قانون کے ماتحت ان کا یہ اعزاز جس کی خاطر سے یہ لوگ کفر وشرک کی تلقین کرتے تھے ۔ تذلیل و تحقیر سے بدل دیا جائے گا ۔ اور چہرہ کی آب وتاب جاتی رہے گی ۔ ان کا غرور اور تکبر خاک میں مل جائیگا ۔ اور ان کو معلوم ہوجائے گا ۔ کہ دنیا کی وجاہت اور عزت محض بیکار ہے ۔ اس کا اعزاز یہ ہے کہ اللہ کے ہاں سرخروئی ہو ۔ اور وہ ان کے ساتھ عزت واحترام کا سلوک روا رکھے *۔ ف 2: جہاں یہ بتایا ہے کہ یہ منکرین جہنم میں جائیں گے ۔ اور بےآبروئی کی زندگی بسر کریں گے متقین اور پاکبازوں کے متعلق ارشاد فرمایا کہ ان کو کامیابی کے ساتھ نجات سے نوازا جائے گا ۔ اور ان کی زندگی بالکل عیش اور آسودگی کی زندگی ہوگی ۔ ان کو وہاں کوئی فکر دامن گیر نہ ہوگا ۔ نہایت سکون ووقار کیس اتھ یہ لوگ اللہ کی عنایتوں سے مستفید ہوں گے ۔ اور اپنی خوش بختی پر ناز کریں گے * حل لغات :۔ فرطت ۔ تقصیر وکوتاہی ۔ قفریظ سے ہے * الساخیرین ۔ شخریۃ سے بمعنی استہزا *