سورة الصافات - آیت 113

وَبَارَكْنَا عَلَيْهِ وَعَلَىٰ إِسْحَاقَ ۚ وَمِن ذُرِّيَّتِهِمَا مُحْسِنٌ وَظَالِمٌ لِّنَفْسِهِ مُبِينٌ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اسے اور اسحاق کو برکت دی اب ان دونوں کی اولاد میں کوئی محسن ہے اور کوئی اپنے نفس پر واضح طور پر ظلم کرنے والا ہے۔

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

(ف 1) یہ ایک پرانا اختلاف ہے کہ ذبیح کون ہے ۔ حضرت اسماعیل یا حضرت اسحاق ؟ صحیح اور محققانہ رائے یہ ہے کہ اس سعادت کا فخر حضرت اسمٰعیل کو حاصل ہوا۔ دلائل یہ ہیں :۔ (1) قرآن کا انداز بیان اس پر شاہد ہے کیونکہ اس سارے واقعہ کو بیان کرنے کے بعد فرمایا ہے ۔﴿ وَبَشَّرْنَاهُ بِإِسْحَاقَ نَبِيًّا مِنَ الصَّالِحِينَ﴾کہ ہم نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اسحاق کی نبوت اور سعادت کی خوشخبری سنائی ۔ دوسری جگہ فرمایا ہے کہ ہم نے اس بات کی بھی بشارت دی تھی کہ حضرت اسحاق کی نسل بڑھے گی اور ان کے ہاں یعقوب پیدا ہوں گے ۔ ﴿وَمِنْ وَرَاءِ إِسْحَاقَ يَعْقُوبَ﴾پھر یہ کیونکر ممکن ہے کہ جس بیٹے کو آئندہ چل کر نبوت کا اعزاز حاصل کرنا ہے ۔ اور جس کا ایک نسل کا باپ ہونا پہلے سے مقدور ومعلوم ہے ۔ اس کو ابراہیم ذبح کرنے کے لئے تیار ہوجائیں ۔ (2) حضور (ﷺ) نے اپنے متعلق ارشاد فرمایا ہے ’’أَنا بن الذَّبِيحَيْنِ ‘‘ یہاں غلام حلیم کا تذکرہ ہے اور دوسری جگہ تصریح فرما دی ہے کہ اس حلم وصبر کے مستحق حضرت اسماعیل (علیہ السلام) تھے ۔﴿ وَاذْكُرْ إِسْمَاعِيلَ وَالْيَسَعَ وَذَا الْكِفْلِ وَكُلٌّ مِنَ الْأَخْيَارِ (3) اسلوب بیان سے ظاہر ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پہلے اولاد نہیں ہے ۔ اور وہ ایک ایسا مسعود مولود چاہتے ہیں جو ان کے منصب صلاح وتقویٰ كا حامل ہو سکے، اور مسلم ہے کہ حضرت اسماعیل ہی آپ کے پہلو ٹھے بیٹے تھے ۔ (4) آج تک نحر اور قربانی کی رسوم کا تعلق ارض بیت اللہ سے ہے ۔ اگر حضرت اسحق مراد ہوتے تو قربانی کا مرکز شام ہوتا ۔