فَأَرَادُوا بِهِ كَيْدًا فَجَعَلْنَاهُمُ الْأَسْفَلِينَ
انہوں نے اس کے خلاف کارروائی کی تھی مگر ہم نے انہیں ذلیل کر دیا۔
(ف 1) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا منصوبہ یہ تھا کہ کسی طریق سے ان لوگوں پر بتوں کی عاجزی اور بےبسی ثابت ہوجائے اور یہ دیکھ لیں کہ ان کے بت خود اپنی حفاظت پر قادر نہیں ہیں ۔ چہ جائیکہ کائنات کا انتظام وانصرام ان کے ہاتھ میں ہو ۔ جب یہ لوگ اپنی مذہبی تقریب میں چلے گئے تو ان کو یہ سوجھی کہ ان کے پاس کچھ کھانا لے کر گئے اور ان سے کھانے کی درخواست کی ۔ اور جب دیکھا کہ یہ کھانے کے لئے ہاتھ نہیں بڑھاتے ہیں تو کہا تم کیوں کھاتے نہیں ہو ۔ اور اگر بھوک نہیں ہے تو بولتے کیوں نہیں ۔ غرض یہ تھی کہ ان لوگوں کے اس عقیدہ کی تذلیل کی جائے اور بتایا جائے کہ جو بت نہ نذرانوں کو قبول کرتے ہیں نہ بولتے ہیں وہ کیونکر خدا ہوسکتے ہیں ۔ جب آپ نے دیکھا کہ یہ اصنام نہ تو بولتے ہیں اور نہ کچھ کرسکتے ہیں تو ایک بھرپور وار کے ساتھ ان کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے اور اس سارے طلسم الوہیت کو ایک لمحہ میں باطل کردیا ۔ یہ خبر سارے بت پرستوں میں پھیل گئی اور وہ لپکے ہوئے آئے اور دیکھا کہ ان کے معبود ابراہیم (علیہ السلام) کے قدموں میں پڑے ہیں فوراً بول اٹھے کہ تم بھی کتنے بےخوف ہو ۔ خود تراشیدہ بتوں کی عبادت کرتے ہو جن کا حشر تمہارے سامنے ہے ۔ یاد رکھو تم کو اور تمہارے خداؤں کو اللہ ہی نے پیدا کیا ہے ۔ ضد کو چھوڑو اور اس کے عقبہ جلال کے سامنے جھک جاؤ اس گستاخی کی پاداش میں جس کا ظہور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے ہوا بت پرستوں نے یہ سزا تجویز کی کہ ان کو ایک بہت بڑے آتش خانہ میں زندہ جھونک دیا جائے اور اس طرح ان سے اور ان کے پیغام توحید سے مخلصی حاصل کرلی جائے ۔ مگر اللہ کو یہ منظور نہ تھا وہاں یہ طے ہورہا تھا کہ ابراہیم اور اس کی نسل کو دنیا میں بڑھایا جائے ۔ اور خیروبرکت کی تمام نعمتوں سے بہرہ مند کیا جائے ۔ چنانچہ ان دشمنان دین کی تمام تدبیریں ناکام رہیں ۔ اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) صاف بچ گئے ۔