فَنَظَرَ نَظْرَةً فِي النُّجُومِ
پھر اس نے ستاروں پر ایک نظر ڈالی۔
(ف 2) ﴿فَنَظَرَ نَظْرَةً فِي النُّجُومِ﴾سے مراد ایک مستقل واقعہ کی طرف اشارہ ہے یعنی ایلدن بہ مشرکان بابل اپنے کسی مذہبی میلے میں شریک ہونے کے لئے جارہے تھے ۔ انہوں نے کہا ابراہیم کو بھی دعوت دی جائے ۔ شاید یہ وہاں کا ٹھاٹھ دیکھ کر اپنے خیالات سے باز آجائے انہوں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے چلنے کو کہا آپ نے غور وفکر کے بعد فرمایا میں تمہارے ان مشاغل سے قطعی بیزار ہوں اور مجھے تمہاری دینی ومذہبی تقریبات سے کوئی دلچسپی نہیں ۔ یہ واضح رہے کہ ﴿فَنَظَرَ نَظْرَةً فِي النُّجُومِ﴾محاورہ ہے جس کے معنی سوچنے اور غور وفکر کرنے کے ہیں ۔ کیونکہ عام طور پر آدمی سوچتے وقت آسمان کی طرف نظریں اٹھاتا ہے اور ﴿إِنِّي سَقِيمٌ﴾کے معنی یہ ہیں کہ میں بیزار ہوں ۔ جیسا کہ صاحب لسان نے تصریح کی ہے تفصیل کا یہ مقام نہیں ۔ بہرحال جب ان لوگوں کو مایوسی ہوئی تو حضرت ابراہیم اپنے منصوبے کی تکمیل میں مصروف ہوگئے جو انہوں نے پہلے سے سوچ رکھا تھا ۔