أَوَلَمْ يَرَ الْإِنسَانُ أَنَّا خَلَقْنَاهُ مِن نُّطْفَةٍ فَإِذَا هُوَ خَصِيمٌ مُّبِينٌ
کیا انسان دیکھتا نہیں ہے کہ ہم نے اسے نطفہ سے پیدا کیا اور پھر وہ واضح طور پر جھگڑالو بن جاتا ہے۔
انعامات الٰہی کا تقاضا (ف 1) اللہ کے انعامات کا ذکر ہے کہ کیونکر انسان کو اس نے تسخیر کی قوتیں عطا کی ہیں ۔ وہ تمام حیوانات کو اپنے تابع کرلیتا ہے ۔ پھر کسی سے سواری کا کام لیتا ہے اور کسی کو کھاتا ہے ۔ اور اس سے غذا کا کام لیتا ہے ۔ پھر ایسے جانور بھی ہیں ، جو دودھ ایسی سے نعمتوں سے اس کا پیٹ بھرتے ہیں کیا وہ اس کرم اور نوازش پر بھی رب العالمین کا شکریہ ادا نہیں کرتا کہ ساری کائنات سے متمتع ہونے کے اختیارات اس نے انسان کو دے رکھے ہیں ۔ اور بڑے بڑے سرکش اور قوی جانوروں کو اس طرح اس کا غلام بنا دیا ہے کہ وہ جو چاہتا ہے ان سے کام لیتا ہے اس سے یہ معلوم ہوا کہ انسان کا درجہ کائنات کی ہر چیز سے بڑا ہے ۔ اور ساری دنیا در اصل اسی کے استعمال اور فائدے کے لئے بنائی گئی ہے ؟ اور اسی لئے گوشت خوری سے یہ لازم نہیں آتا کہ مسلمان بےرحمی کا ارتکاب کرتا ہے کیونکہ جب انسان کا مرتبہ تمام حیوانات سے افضل ہے ، اور حیوانات کی زندگی کا مقصد ہی یہ ہے کہ وہ حیات کبری کی ہر آئینہ مدد کریں ۔ تو انکا کھانا اعلی ترین زندگی میں بدلتا ہے ۔ اور فطرت کے قانون بقاء الاصلح کی تائید کرتا ہے اور ایسی روح کی ترقی اور پابندی کا انتظام کرتا ہے ۔ جو ان کی روح سے کہیں زیادہ قیمتی ہے جس کا باقی رہنا بقائے عالم کے لئے ضروری ہے ۔ چنانچہ آج انسان صفحہ دنیا سے مٹ جائے تو پھر حیوانات کی کیا ہستی ہے ۔ زندگی کے بڑے بڑے مظاہر ختم ہوجائیں نہ آفتاب کی حاجت باقی رہے اور نہ ستاروں کی ۔ زمین گھومے اور نہ آسمان قبائے نیلگوں پہنے ہوئے دکھائی دے ۔ فطرت کا مطالبہ یہ ہے کہ تم ہر چیز کو اپنے حسب منشا استعمال کرو ۔ ہوا میں اڑو ۔ پہاڑوں کو کھودو اسرار ورموز طبیعت پر قابو حاصل کرو ۔ اور زندگی کے بلند ترین نقطہ تک پرواز کرو ۔ مگر ایک چیز کو نہ بھولو ۔ اور وہ یہ ہے کہ یہ سارے احسانات اس لئے ہیں کہ تم خدا کا شکرادا کرو اس کی ممنونیت میں اس کے احکام کی اطاعت کرو ۔ لہٰذا جہاں تم کو یہ آسانیاں حاصل ہیں کہ جو چاہو کرو ۔ وہاں یہ پابندی بھی تمہارے لئے ضروری ہے کہ فطرت کے تقاضوں کو پورا کرو ۔ اور منشاء الٰہی کو سمجھو ۔