وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً ۖ قَالُوا أَتَجْعَلُ فِيهَا مَن يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ ۖ قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ
اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں زمین میں نائب بنانے والا ہوں۔ انہوں نے عرض کیا۔ کیا آپ زمین میں ایسا نائب بنائیں گے جو اس میں فساد کرے گا اور خون بہائے گا۔ جبکہ ہم حمد و ثناء کے ساتھ تیری تسبیح و تقدیس بیان کرتے ہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا جو کچھ میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے
(ف ١) پہلا انسان : سلسلہ انسانیت کا پہلا بطل وہ ہے جسے کائنات ارض کا مالک بنانے والا ہے ۔ اللہ کی عنایات اسے زمین کا تاج وتخت بخشنے والی ہیں ۔ اس کی استعداد وقوت فرشتوں سے بھی زیادہ شاندار ہے ۔ وہ اس لئے بنایا جارہا ہے تاکہ خدا کے جلال وجمال کو دنیا کے کونوں تک پہنچائے اور ساری زمین پر خدا کی بادشاہت ہو ۔ یعنی وہ خلیفۃ اللہ فی الارض ہے ۔ (ف ٢) فرشتوں کو اعتراض ہے کہ ایسے انسان کی کیا ضرورت ہے وہ کہتے ہیں ، جب کائنات کے روحانی نظام کو ہم چلا رہے ہیں ، تیری تسبیح وتقدیس کے کلمے ہر وقت ہمارے لبوں پر نغمہ زن رہتے ہیں جب تیری حمد وستائش کے بےریا ترانے ہم ہر وقت الاپتے رہتے ہیں اور جب ہماری قدوسیت وپاکیزگی کے چار دانگ عالم میں چرچے ہیں تو پھر ایک انسان کو پیدا کرکے کن چیزوں میں اضافہ ہوگا ؟ وہ کہتے ہیں ، انسان زمین میں خود غرضی کی وجہ سے فساد پھیلائے گا ۔ اپنی قوت کا ناجائز استعمال کرے گا اور نتیجہ یہ ہوگا کہ ساری زمین جنگ وجدال کا میدان بن جائے گی ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ، چپ رہو مصلحت یہی ہے ۔ (آیت) ” انی اعلم مالا تعلمون “۔ فرشتوں کو انسانی مستقبل کی دھندلی سی تصویر خود انسان کی ساخت سے نظر آجاتی ہے ۔ وہ جان جاتے ہیں کہ جو انسان مختلف عناصر سے بنایا جائے گا ، اس کی فطرت میں اختلاف رہے گا ۔ مگر خدائے حکیم کا جواب یہ ہے کہ ہم وحدت ویکسانی کی خوبصورتی دیکھ چکے ، اب اختلاف وتنوع کے جمال کو ملاحظہ کرنے دو اور یہ پہلے سے اللہ کے علم میں ہے اور اس لئے مقدرات میں سے ہے ۔ فرشتوں کو یونہی بتا دیا گیا ہے تاکہ وہ انسانی شرف ومجد سے آگاہ ہوجائیں ۔