اسْتِكْبَارًا فِي الْأَرْضِ وَمَكْرَ السَّيِّئِ ۚ وَلَا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ ۚ فَهَلْ يَنظُرُونَ إِلَّا سُنَّتَ الْأَوَّلِينَ ۚ فَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَبْدِيلًا ۖ وَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَحْوِيلًا
یہ زمین میں اور زیادہ سرکشی کرنے لگے اور بری بری چالیں چلنے لگے حالانکہ بری چالیں چلنے والوں ہی کو لے بیٹھتی ہیں، اب کیا یہ لوگ اس کا انتظار کر رہے ہیں کہ پچھلی قوموں کے ساتھ اللہ کا جو طریقہ رہا ہے وہی طریقہ ان کے ساتھ بھی کیا جائے؟ یہی بات ہے۔ تو اللہ کے طریقہ میں تم کبھی تبدیلی نہیں پاؤ گے اور تم کبھی نہیں دیکھو گے کہ اللہ کے طریقہ کو اس کے مقرر طریقہ سے کوئی طاقت پھیر سکتی ہے۔
(ف 2) وہ سب سے بڑا گناہ جس کی وجہ سے ان پر آسمان کو گرپڑنا چاہیے اور زمین کو پھٹ جانا چاہیے یہ ہے کہ انہوں نے باوجود عہد ومواثیق کے ا للہ کے پیغام کو ٹھکرایا ۔ اللہ کے رسول (ﷺ) کی تذلیل کی ۔ اور اپنے طرز عمل سے سخت نفرت اور بیزاری کا اظہار کیا ۔ حالانکہ کہتے یہ تھے کہ اگر ہمارے پاس کوئی نذیر آیا تو اس کا بڑھ کر خیرمقدم کریں گے ۔ اور تمام لوگوں سے زیادہ ہدایت حاصل کرینگے ۔پھر صرف محرومی اور انکار پر بس نہیں کی کہ یہ ان کی شقاوت کے لئے کافی تھا بلکہ ازراہ کبر وغرور اس نوع کی مساعی بھی اختیار کیں جن سے حضور کو نقصان پہنچے اور اسلام کا علم سرنگوں ہوجائے ۔ فرمایا یہ لوگ اپنے ارادوں میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔ بری تدبیریں اور فریب کاریاں بالآخر انہی لوگوں کو گھیر لیں گی ۔ اور ان کی زندگی کو اجیرن کردیں گی ۔ ان لوگوں کو سنت اللہ کا انتظار ہے ۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ کے قانون کے نفاذ میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی ۔ یہ یاد رہے کہ سنت اللہ کا اطلاق قرآن میں صرف قانون تعذیب پر ہوتا ہے ۔ اس کے معنی صرف یہ ہیں کہ مکافات اعمال کے ضابطے میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی ۔ ہر قوم اور ہرگروہ جب اللہ کے احکام کو ٹھکرا دے اور ان کی تذلیل کرے تو فطرت کی طرف لازم ہوجاتا ہے کہ ان کوان کے اس طرز عمل کی سزا دے اور دوسروں کے لئے عبرت وموعظت کا سامان پیدا کرے ۔ حل لغات : مَكْرَ السَّيِّئِ۔ بری تدبیر ۔ فریب کاری۔ لِسُنَّتِ اللَّهِ۔ سنت اللہ کے معنی راہ وروش اور عادت کے ہیں ۔ سنت اللہ سے مراد ہے اللہ کا قانون مکافات اس لفظ میں یہاں استعمال کے لحاظ سے وہ عموم نہیں ہے ۔ جو بعض لوگوں نے سمجھ رکھا ہے ۔