سورة البقرة - آیت 26

إِنَّ اللَّهَ لَا يَسْتَحْيِي أَن يَضْرِبَ مَثَلًا مَّا بَعُوضَةً فَمَا فَوْقَهَا ۚ فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا فَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْ ۖ وَأَمَّا الَّذِينَ كَفَرُوا فَيَقُولُونَ مَاذَا أَرَادَ اللَّهُ بِهَٰذَا مَثَلًا ۘ يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا وَيَهْدِي بِهِ كَثِيرًا ۚ وَمَا يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفَاسِقِينَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

یقیناً اللہ تعالیٰ نہیں شرماتا کہ کوئی مثال بیان کرے مچھر کی ہو یا اس سے حقیر تر چیز کی جو لوگ ایمان لائےوہ تو اسے اپنے رب کی جانب سے حق سمجھتے ہیں اور کفار کہتے ہیں اللہ نے اس مثال کے ساتھ کیا چاہا ہے۔ اللہ اس مثال کے ذریعہ سے بہت سے لوگوں کو گمراہ کرتا ہے اور بہت سے لوگوں کو ہدایت دیتا ہے اور نہیں گمراہ کرتا مگر نافرمانوں کو

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

(ف1) خائب وخاسر لوگ : فلاح وسعادت کی راہ ایمان وعمل کی راہ ہے ۔ وہ جو فاسق ہیں اللہ کی حدود کی پرواہ نہیں کرتے ، ان کے لئے خسارہ ہے ۔ نہ دنیا میں وہ کامیابی کی زندگی بسر کرسکتے ہیں اور نہ آخرت میں ان کا کوئی حصہ ہے ، منافق کی تین علامتیں ہیں : ۔ (ا) نقض عہد ، یعنی خدا کے بنائے ہوئے اور بندھے ہوئے قوانین کا توڑنا۔ (ب) علائق ضرورت سے قطع تعلق یعنی ان تمام رشتوں سے تغافل جو انسانی فلاح وبہبود کے لئے از بس ضروری ہیں ۔ (ج) فساد فی الارض ۔ ظاہر ہے کہ جو لوگ رب فاطر کے بتائے ہوئے قوانین کا خیال نہیں رکھتے جو اپنوں سے دشمنوں کا سا سلوک کرتے ہیں ، جو ساری زمین میں فتنہ وفساد کی آگ کو روشن رکھتے ہیں ، ان سے کون بھلائی کرے گا اور وہ کس طرح ایک سعادت مند انسان کی زندگی بسر کرسکیں گے ۔