سورة البقرة - آیت 25

وَبَشِّرِ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ۖ كُلَّمَا رُزِقُوا مِنْهَا مِن ثَمَرَةٍ رِّزْقًا ۙ قَالُوا هَٰذَا الَّذِي رُزِقْنَا مِن قَبْلُ ۖ وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا ۖ وَلَهُمْ فِيهَا أَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ ۖ وَهُمْ فِيهَا خَالِدُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اور ایمان لانے اور صالح اعمال کرنے والوں کو خوش خبری دیں کہ ان کے لیے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں چلتی ہیں۔ جب جنتی پھلوں سے رزق دیے جائیں گے تو وہ کہیں گے یہ وہی ہیں جو ہم اس سے پہلے دیے گئے تھے اور انہیں اس سے ملتے جلتے پھل دیے جائیں گے اور ان کے لیے پاک بیویاں ہوں گی اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

ایک تمثیل : جنت کا ذکر کرکے یہ فرمایا ہے کہ یہ نعمتیں جو بیان کی گئی ہیں ان کی حقیقت اصل میں ایک حقیر مچھر سے بھی کم ہے مگر یہ کور باطن لوگ جنت کے لذائذ کو سن کر معترض ہوتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ یہی چیزیں تو ہم چاہتے ہیں مگر وہ لوگ جو اہل حق وصداقت ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ سب کچھ ہمارے سمجھانے کے لئے ہے ، ورنہ جنت کے کوائف نہایت لطیف ‘ پاکیزہ اور بالا از حواس ہیں ۔ سورۃ مدثر میں اہل جہنم کا ذکر کرکے بالکل انہیں کلمات کو دہرایا ہے کہ یہ لوگ یہ چیزیں جہنم کے متعلق سن کر کہتے ﴿مَاذَا أَرَادَ اللَّهُ بِهَذَا مَثَلًا جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ تمثیل سے مراد جنت ودوزخ کے کوائف کی تمثیل ہے ، ورنہ سارے قرآن میں خدا تعالیٰ نے کہیں مچھر کا ذکر نہیں کیا اور ربط آیات کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اس کے یہی معنی لئے جائیں ۔ واللہ اعلم ۔ حل لغات : جَنَّاتٍ : جمع جنۃ ، باغ ۔ محفوظ ۔ خَالِدُونَ ۔ جمع خالد ، ہمیشہ رہنے والا ۔ مادہ خلود بمعنی دوام ۔