سورة النمل - آیت 66

بَلِ ادَّارَكَ عِلْمُهُمْ فِي الْآخِرَةِ ۚ بَلْ هُمْ فِي شَكٍّ مِّنْهَا ۖ بَلْ هُم مِّنْهَا عَمُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

بلکہ آخرت کا علم ہی ان لوگوں سے گم ہوگیا ہے حقیقت یہ ہے کہ اس کے بارے میں شک میں پڑے ہوئے ہیں بلکہ یہ اس کے متعلق اندھے ہیں۔“ (٦٦)

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

علم غیب کی تعریف ف 1: قرآن حکیم نے بار بار اس حقیقت کی صراحت فرمائی ہے کہ اللہ کے سوا کوئی علوم غیب سے آگاہ نہیں اسی نے کائنات کو پیدا کیا اور وہی کائنات کے اسرار سے آشنا ہے ۔ بہت کم لوگ غیب اصلیت سے واقف ہیں *۔ اکثر غیب کے معنے یہ سمجھتے ہیں کہ ان چیزوں کے جاننے کو غیب کہتے ہیں ، جس کا پیشتر سے علم نہ ہو ۔ ظاہر ہے کہ ان معنوں کے ااعتبار سے ہر شخص عالم الغیب ہے ۔ کیونکہ ہر شخص کچھ نہ کچھ ایسی باتیں معلوم کرلیتا ہے ۔ جس کا پیشتر سے اس کو علم نہیں ہوتا ۔ اور اس طرح اس کی معلومات میں اضافہ ہوتا رہتا ہے ۔ یہ ایجادات واعتراضات کیا ہیں ۔ کیا یہ پیشتر سے انسانوں کو معلوم تھیں ؟ اور اگر معلوم نہیں تھیں تو کیا ان سے آگاہی علم غیب ہے ! اور اگر نوع کی معلومات علم غیب کی تعریف میں آسکتی ہیں تو پھر صرف خدا کے عالم الغیب ہونے کے کیا معنی ہیں ! یہ سوالات ہیں جو قدرتاً غیب کی صحیح تعریف نہ جاننے کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں *۔ بات اصل میں یہ ہے کہ : کہ غیب کے معنی مطلقاً کسی چیز کو اس طرح جاننے کے ہیں ۔ کہ استدلال اور استنباط کی درمیانی کڑیاں مفقود ہوں ۔ یعنی اس چیز کو معلوم کرنے کا کوئی منطقی اور طبعی ذریعہ نہ ہو اور باوجود اس کے تعین ویقین کے ساتھ اس کا پتہ دیا جائے ۔ اس قسم کا علم اللہ تعالیٰ کے ساتھ مختص ہے ۔ کیونکہ وہ ہر چیز کو بلا کسی توسط کے بطور خود جانتا ہے اور اس کو کسی استدلال اور استنباط کی ضرورت نہیں ۔ اور چونکہ انسان کا علم اکتسابی ہے اس لئے وہ علوم غیب پر مطلع نہیں ہوسکتا *۔ حل لغات : بل ادارک ۔ اصل میں تبارک تھا ۔ یعنی آخرت کی بابت ان کا علم ختم ہوچکا ہے *۔