قَالَتْ يَا أَيُّهَا الْمَلَأُ إِنِّي أُلْقِيَ إِلَيَّ كِتَابٌ كَرِيمٌ
” ملکہ نے کہا اے وزراء میری طرف سلیمان کی طرف سے ایک اہم خط بھیجا گیا ہے۔
ملکہ سبا کی طرف حضرت سلیمان کا مکتوب : (ف 1) ہدہد نے یا صاحب ہد ہد نے جب یہ عذر پیش کیا کہ میں نے ایک جدید سلطنت دریافت کی ہے جہاں کے رہنے والے آفتاب کی پوجا کرتے ہیں ۔ اور راہ راست سے کھسکے ہوئے ہیں ۔ توحضرت سلیمان نے اس کو ایک رقعہ دیا ۔ اور کہا کہ اس کو لے کر وہاں جاؤ۔ اور معلوم کرو کہ وہ کیا جواب دیتے ہیں ۔ تاکہ تمہارا جھوٹ اور سچ عیاں ہوجائے ۔ ارشاد ہے کہ وہ آفتاب کو تو پوجتے ہیں اور یہ نہیں جانتے کہ اس کو مشرق کے مستور افق سے جلوہ گر کرنے والا کون ہے ۔ اور وہ کون ہے جو سینے کے اندر تک سے واقف ہے معلوم ہوتا ہے کہ آفتاب پرستی کی ابتداء اس خیال سے ہوتی ہے کہ آفتاب روشنی اور نور کا مرکز ہے ۔ اور خدا کا بھی نور ہے ۔ اس لئے ممکن ہے کہ سورج اس کے حسن وجمال اور تجلیات کا بہت بڑا آئینہ دار ہو ۔ قرآن حکیم نے بتایا ہے کہ یہ عقیدہ اور خیال غلط ہے اس کے نور اور اس کی قدرتوں میں دنیا کی کوئی چیز شریک یا سہیم نہیں ۔ وہ تو نور ہے اور یکسر نور ہے ۔ مگر اس کے نور ہونے کے معنی یہ نہیں کہ وہ کوئی جرم منور ہے یا کوئی مادی روشنی اور اجالا ہے بلکہ یہ معنی ہیں کہ کائنات کا وجود اس کی وجہ سے قائم ہے اور اگر وہ نہ ہو تو پھر تمام دنیا عدم کے اندھیروں میں گم ہو اور کسی چیز کا بھی وجود دکھائی نہ دے وہ واحد معبود ہے اور کوئی شخصیت بجز اس کے اس قابل نہیں کہ انسان جیسی پر عظمت ہستی اس کے سامنے جھکے غرض یہ ہے کہ ملکہ سبا کی قوم آفتا ب کی پرستش کرتی تھی حضرت سلیمان نے تحقیق احوال کے لئے ہدہد کو بھیجا تاکہ وہ اس قوم کے پاس جائے اور اصل معاملہ دریافت کرے ۔ حل لغات : الْمَلَأُ: سرداران قوم ، معززین حضرات ۔