نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ
اِسے لے کر امانت دارفرشتہ آیا اور اس نے تیرے دل پر اتارا ہے۔ (١٩٣)
ف 1: قصص واخبار کا ذکر کرکے یہ بتایا کہ یہ وہ کتاب ہے ۔ جو اقوام و ملل کے حالات پر مشتمل ہے ۔ اور اس میں زندگی کے ہر شعبہ پر کماحقہ بحث ہے ۔ جو انتہا درجے کی فصاحت وبلاغت سے متصف ہے اور جو تعلیمات اور پیغام کے لحاظ سے کائنات کی جامع ترین کتاب ہے ۔ اللہ کا پیغام ہے جو عوام مادی وروحانی سب کا یکساں رب ہے ۔ اس کو روح الامین یعنی جبرائیل لائے ہیں ۔ جبرائیل الامین اللہ تعالیٰ کے مقرب فرشتے ہیں ۔ اور تبلیغ احکام پر نظر رہیں آپ کے قلب پر اللہ کی جانب سے تعلیم کا نزول ہوتا ہے ۔ وہ اللہ سے آیات سن کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دل تک پہنچادیتے ہیں ۔ یہ کتاب عربی زبان میں نازل کی گئی یعنی ایک ایسی زبان میں جو روحانی مطالب کودا کرنے کے لئے بہت زیادہ موزون ہے ۔ اور اس کا ذکر پہلی کتابوں میں بھی موجود ہے ۔ اسی کو آتشین شریعت کہا گیا ہے ۔ اس کی آمد آمد کے ترانے گائے گئے ہیں ۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے ۔ اور ایک سردار آنے والا ہے ۔ ایک سرخ وسپید انسان کے آنے کی پیشگوئی ہے ۔ اور یہ وضاحت مذکور ہے ۔ کہ دنیا میں ایک نیا یروشلم آباد ہونے والا ہے ۔ اس بات کا بھی ذکر ہے کہ نئے نئے ممالک اس صاحب شریعت کی راہ تکیں گے ۔ اور ساری دنیا اس کے نغموں سے گونج اٹھے گی *۔ ارشاد ہے کہ ان حقائق سے بنی اسرائیل کے علماء آگاہ ہے اور وہ جانتے ہیں ۔ کہ یہ سب باتیں صحیح اور درست ہیں *۔ فرمایا ہے کہ گو عربی میں قرآن کو نازل کرنے کی یہ مصلحت تھی کہ مطالب کو زیادہ وضاحت کے ساتھ اس میں پیش کیا جاسکتا ہے ۔ دوسری زبانیں ادائے مطالب کیے حق میں اس کی ہمسری نہیں کرسکتیں ۔ تاہم اگر اس کو کسی دوسری زبان میں ہم نازل کرتے ۔ تو یہ لوگ بہرآئنہ منکر رہتے ۔ کیونکہ ان کے سب ودماغ کی حالت کچھ اس نوع کی ہے ۔ کہ پذیرائی حق کے لئے کوئی گنجاس نہیں رکھتے ۔ ان کی طبیعتیں مسخ ہوچکی ہیں اور رسدوہدایت کی استعداد چھن چکی ہے *۔ اس کے بعد یہ بتایا ہے ۔ کہ یہ لوگ عذاب الیم کے منتظر ہیں ۔ اور جب تک یہ عذاب نہ آئے گا ۔ یہ لوگ سچائی اور حق کا اعتراف نہ کریں *۔ قرآن حکیم کے متعلق یہ کہنا کہ انسانی کام سے بھراپا نا واقفیت اور جہالت پر دال ہے ۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ایک انسان جو زیادہ تعلیم یافتہ ماحول میں پیدا نہیں ہوتا جو کسی کے سامنے زانوئے تہہ نہیں کرتا ۔ جس کے حالات عادی اور معمولی نہیں ۔ وہ یکایک حکمت وفلسفہ اگلنے لگے اور اقوام وعلی کے فلسفہ موت وحیات پر متبصرانہ فیصل فرمانے لگے *۔ کیا یہ ہوسکتا ہے ۔ کہ ایک ایسی کتاب انسانی دماغ کا نتیجہ ہو ۔ جو فصیح وبلیغ بھی ہے ۔ آسان بھی ہے اور تمام انسانی ضروریات وداعیات کو پورا کرنے والی بھی ہے *۔