سورة الشعراء - آیت 69

وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ إِبْرَاهِيمَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اور انہیں ابراہیم کے حالات سناؤ۔

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا قوم سے تخاطب (ف 1) ان آیات میں یہ بتایا ہے کہ کس طریق سے حضرت ابراہیم نے توحید کی آواز کو بت پرستوں کے کانوں تک پہنچایا ۔ اور اس راہ میں کن مشکلات اور دشواریوں کو برداشت کیا ۔ اور یہ کہ حضرت ابراہیم کے دماغ میں توحید کا کس درجہ روشن اور صحیح تخیل موجود تھا ۔ بات یہ تھی کہ جس عہد میں حضرت ابراہیم مبعوث ہوئے ۔ اس عہد میں بابل میں سخت ترین جہالت رائج تھی ۔ لوگ بتوں کو پوجتے تھے ۔ ستاروں کے نام پر اپنے معابد تعمیر کرتے تھے ۔ اور اللہ کو قطعاً فراموش کرچکے تھے ۔ اور بڑی مصیبت کی بات یہ تھی کہ حضرت ابراہیم کی قوم اور خود ان کا باپ شرک کی لعنتوں میں گرفتار تھے ۔ حضرت ابراہیم نے جرات سے کا م لے کر توحید کو پھیلانا شروع کردیا ۔ اور سب سے پہلے اپنی قوم اور اپنے باپ سے پوچھا کہ تم لوگ کس چیز کی عبادت کرتے ہو ۔ انہوں نے کہا مورتیوں کو پوجتے ہیں ۔ اور اس عقیدے سے ہٹنے کے نہیں ۔ بس یوں سمجھ لو کہ اپنے معتقدات پر سختی سے قائم ہیں ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بڑی سنجیدگی سے پوچھا ۔ یہ تمہاری پکار کو سنتے ہیں ۔ اور تمہیں نفع یا نقصان پہنچا سکتے ہیں ۔ انہوں نے کہا یہ بات تو نہیں مگر باپ دادا کا یہی مذہب ہے ۔ اس لئے چھوڑنا نہیں چاہتے ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا کیا تم نے اور تمہارے باپ دادا نے ان معبودوں کے معتلق غور کیا ہے ؟