وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ إِبْرَاهِيمَ
” اور انہیں ابراہیم کے حالات سناؤ۔ (٦٩)
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا قوم سے تخاطب حاشیہ صفحہ ھذا ف 1: ان آیات میں یہ بتایا ہے ۔ کہ کس طریق سے حضرت ابراہیم نے توحید کی آواز کو بت پرستوں کے کانوں تک پہنچایا ۔ اور اس راہ میں کن مشکلات اور دشواریوں کو برداشت کیا ۔ اور یہ کہ حضرت ابراہیم کے دماغ میں توحید کا کس درجہ روشن اور صحیح تخیل موجود تھا *۔ بات یہ تھی ۔ کہ جس عہد میں حضرت ابراہیم مبعوث ہوئے ۔ اور اس عہد میں بابل میں سخت ترین جہالت رائج تھی ۔ لوگ بتوں کو بوجتے تھے ۔ ستاروں کے نام پر اپنے معاہد تعمیر کرتے تھے ۔ اور اللہ کو قطعاً فراموش کرچکے تھے ۔ اور بڑی مصیبت کی بات یہ تھی ۔ کہ حضرت ابراہیم کی قوم ۔ اور خود ان کا باپ شرک کی لعنتوں میں گرفتار تھے *۔ حضرت ابراہیم نے جرات سے کا م لے کر توحید کو پھیلانا شروع کردیا ۔ اور سب سے پہلے اپنی قوم اور اپنے باپ سے پوچھا ۔ کہ تم لوگ کس چیزیوں کی عبادت کرتے ہو ۔ انہوں نے کہا ۔ مورتیوں کو پوجتے ہیں ۔ اور اس عقیدے سے ہٹنے کے نہیں ۔ بس یوں سمجھ لو کہ اپنے معتقدات پر سختی سے قائم ہیں ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بڑی سنجیدگی سے پوچھا ۔ یہ تمہاری پکار کو سنتے ہیں ۔ اور تمہیں نفع یا نقصان پہنچا سکتے ہیں ۔ انہوں نے کہا ۔ یہ بات تو نہیں مگر باپ دادا کا یہی مذہب ہے ۔ اس لئے چھوڑنا نہیں چاہتے ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا کیا تم نے اور تمہارے باپ دادا نے ان معبودوں کے معتلق غور کیا ہے *۔