سورة الشعراء - آیت 10

وَإِذْ نَادَىٰ رَبُّكَ مُوسَىٰ أَنِ ائْتِ الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” انہیں اس وقت کا واقعہ سناؤ جب آپ کے رب نے موسیٰ کو فرمایا کہ ظالم قوم کے پاس جاؤ۔

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

حضرت موسیٰ کا مطالبہ آزادی (ف 2) حضرت یوسف سے تقریباً چار سو سال بعد بنی اسرائیل کی حالت مصر میں بہت خراب ہوگئی ۔ اور ان پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے جانے لگے ۔ اللہ تعالیٰ کو یہ منظور ہوا کہ ان کی بہتری اور بہبودی کے لئے ایک پیغمبر کو بھیجا جائے ۔ جو ان کی غلامی اور بندگی کی زنجیروں کو توڑ دے ۔ اور جو اپنے انفاس قدسیہ سے ان لوگوں کے دل میں ایمان کی شمع کو روشن کردے ۔ چنانچہ اس خدمت کے لئے حضرت موسیٰ کو منتخب کیا گیا ۔ اور آپ سے کہا گیا کہ فرعون کی قوم بہت ظالم ہوچکی ہے ۔ اور اس کی سرکشیاں حد سے زیادہ بڑھ گئی ہیں ۔ تم جاؤ۔ اور اس کو رشدوہدایت کی طرف دعوت دو ۔ آخر کیوں ان لوگوں کے دلوں میں خشیت وتقوی کے جذبات پیدا نہیں ہوتے ؟ حضرت موسیٰ نے کہا کہ میں ڈرتا ہوں کہ وہ مطالبے کو ٹھکرا نہ دیں ۔ اور میرے پیغام کی تکذیب نہ کردیں ۔ یہ بھی خیال ہے کہ ان کا سامنا کرنے سے میرے دل میں ایک قسم کی تنگی پیدا ہوتی ہے ۔ اور زبان بھی جو ہر بلاغت ، فصاحت سے محروم ہے ۔ اور ایک یہ بات بھی ہے ۔ کہ قبطی کو مارڈالنے کا جرم بھی مجھ پر ہے ۔ اس لئے مجھے مارے ڈالے جانے کا بھی خوف ہے ۔ غرضیکہ میری انتہا درجہ کی مخالفت ہوگی ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ۔ جاؤ ان میں سے کوئی خوف بھی تمہارے دل میں نہیں رہے گا ۔ تمہارے سینے کی تنگی اور ضیق کو انشراح سے بدلے دیتے ہیں ۔ زبان فصیح وبلیغ ہوجائے گی ۔ اور ہاتھ بٹانے کے لئے ہارون کو ساتھ کئے دیتے ہیں ۔ ہماری نشانیاں لے کر فرعون کے پاس جاؤ۔ ہم تمہاری دعاؤں کو سننے والے ہیں ۔ فرعون سے جاکر صاف صاف طور پر کہہ دو ہم رب العالمین کی طرف سے رسول ہوکر آئے ہیں ۔ اس لئے اب بنی اسرائیل کی غلامی کا دور ختم ہوچکا ہے ۔ اب وقت آگیا ہے ۔ کہ تو ان کو آزادی کی نعمت سے بہرہ ور ہونے کا موقع دے ۔ اب یہ عبودیت اور ذلت کی زندگی بسر نہیں کرسکتے ۔