وَإِذْ نَادَىٰ رَبُّكَ مُوسَىٰ أَنِ ائْتِ الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ
” انہیں اس وقت کا واقعہ سناؤ جب آپ کے رب نے موسیٰ کو فرمایا کہ ظالم قوم کے پاس جاؤ۔
حضرت موسیٰ کا مطالبہ آزادی (ف 2) حضرت یوسف سے تقریباً چار سو سال بعد بنی اسرائیل کی حالت مصر میں بہت خراب ہوگئی ۔ اور ان پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے جانے لگے ۔ اللہ تعالیٰ کو یہ منظور ہوا کہ ان کی بہتری اور بہبودی کے لئے ایک پیغمبر کو بھیجا جائے ۔ جو ان کی غلامی اور بندگی کی زنجیروں کو توڑ دے ۔ اور جو اپنے انفاس قدسیہ سے ان لوگوں کے دل میں ایمان کی شمع کو روشن کردے ۔ چنانچہ اس خدمت کے لئے حضرت موسیٰ کو منتخب کیا گیا ۔ اور آپ سے کہا گیا کہ فرعون کی قوم بہت ظالم ہوچکی ہے ۔ اور اس کی سرکشیاں حد سے زیادہ بڑھ گئی ہیں ۔ تم جاؤ۔ اور اس کو رشدوہدایت کی طرف دعوت دو ۔ آخر کیوں ان لوگوں کے دلوں میں خشیت وتقوی کے جذبات پیدا نہیں ہوتے ؟ حضرت موسیٰ نے کہا کہ میں ڈرتا ہوں کہ وہ مطالبے کو ٹھکرا نہ دیں ۔ اور میرے پیغام کی تکذیب نہ کردیں ۔ یہ بھی خیال ہے کہ ان کا سامنا کرنے سے میرے دل میں ایک قسم کی تنگی پیدا ہوتی ہے ۔ اور زبان بھی جو ہر بلاغت ، فصاحت سے محروم ہے ۔ اور ایک یہ بات بھی ہے ۔ کہ قبطی کو مارڈالنے کا جرم بھی مجھ پر ہے ۔ اس لئے مجھے مارے ڈالے جانے کا بھی خوف ہے ۔ غرضیکہ میری انتہا درجہ کی مخالفت ہوگی ۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا ۔ جاؤ ان میں سے کوئی خوف بھی تمہارے دل میں نہیں رہے گا ۔ تمہارے سینے کی تنگی اور ضیق کو انشراح سے بدلے دیتے ہیں ۔ زبان فصیح وبلیغ ہوجائے گی ۔ اور ہاتھ بٹانے کے لئے ہارون کو ساتھ کئے دیتے ہیں ۔ ہماری نشانیاں لے کر فرعون کے پاس جاؤ۔ ہم تمہاری دعاؤں کو سننے والے ہیں ۔ فرعون سے جاکر صاف صاف طور پر کہہ دو ہم رب العالمین کی طرف سے رسول ہوکر آئے ہیں ۔ اس لئے اب بنی اسرائیل کی غلامی کا دور ختم ہوچکا ہے ۔ اب وقت آگیا ہے ۔ کہ تو ان کو آزادی کی نعمت سے بہرہ ور ہونے کا موقع دے ۔ اب یہ عبودیت اور ذلت کی زندگی بسر نہیں کرسکتے ۔