وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَٰذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا
” اور رسول کہے گا کہ اے میرے رب میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ دیا تھا۔“ (٣٠)
قرآنی تعلیمات کو پس پشت ف 1: یعنی ایک طرف تو مشرکین ومنکرین افسوس کا اظہار کریں گے دوسری جانب اللہ کا رسول کھڑا ہوگا اور کہ گا اے اللہ میں نے ہرچند ان لوگوں کو قرآن کی جانب بلایا اور صراط مستقیم کی دعوت دی ۔ مگر ان لوگوں نے ہمیشہ روگردانی کی اور قرآنی تعلیمات کو پس پشت ڈال دیا ۔ اس لئے آج ان سے بھی ایسا ہی سلوک ہو کہ یہ تیری عنایتوں اور مہربانیوں کے امیدوار نہیں اور تیری طرف سے بالکل بےالتفاتی کا اظہار ہو ۔ جس طرح انہوں نے تیری کتاب کو پس پشت ڈال دیا تھا ۔ اسی طرح اب ان کی معروضات ناقابل اعتناء سمجھی جائیں *۔ آیت کا مفہوم کے اعتبار سے عام ہے اس میں وہ مسلمان بھی داخل ہیں جنہوں نے عملاً قرآن کو ترک کر کھا ہے اور ان کی زندگی یکسر غیر قرآنی زندگی ہے ۔ حدیث میں آیا ہے کہ جو شخص قرآن کو پڑھ کر فراموش کردے گا اور پھر اس کو کبھی نہ دیکھے گا ۔ قرآن قیامت کے روز اللہ سے کہے گا اے اللہ تیرے اس بندے نے مجھے بالکل چھوڑ رکھا تھا ۔ اس لئے میرے اور اس کے درمیان فیصلہ فرمائیے یعنی ہر مسلمان سے پوچھا جائے گا کہ اس نے قرآن پڑھا اور پڑھ کر اس پر عمل کرنے کی کوشش کی یا دنیا کی الجھنوں میں پھنسا رہا اور سب کچھ بھلا بیٹھا ۔