قُلْ أَنزَلَهُ الَّذِي يَعْلَمُ السِّرَّ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ إِنَّهُ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًا
اے نبی ان سے کہو کہ اسے نازل کیا ہے اس نے جو زمین و آسمانوں کا بھید جانتا ہے حقیقت یہ ہے کہ وہ بڑاغفورورحیم ہے۔“ (٦)
قرآن خدا کا کلام ہے : (ف ١) نصر بن حرث اور اس قماش کے دوسرے لوگ جب یہ دیکھتے کہ قرآن کی فصاحت وبلاغت کا جواب بن نہیں آتا تو وہ کہتے کہ یہ خدا کا کلام تھوڑا ہی ہے ، یہ تو افتراء ہے وہ لوگ جو اہل کتاب تھے اور اب مسلمان ہوگئے ہیں ، اس کی ترتیب وتدوین میں محمد (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کا ہاتھ بٹاتے ہیں نیز کہتے کہ یہ پہلے لوگوں کی کہانیاں اور قصے ہیں ، جس کو اس نے لکھوا لیا ہے اور اب قرآن کے نام سے ہمارے سامنے پیش کر رہا ہے ۔ قرآن کہتا ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں ، اور خدا کی جانب سے فرستادہ ہیں ، ان کا پیش کردہ کلام خدا کا کلام ہے دلیل یہ ہے کہ اس میں ایسا علم اور ایسا علم اور ایسی وسعت معارف ہے جو اللہ کے ساتھ مختص ہے ۔ جس طرح آسمانوں اور زمین کے بھیدوں اور اسرار کائنات کو بجز خالق کون ومکان کوئی نہیں جانتا ، اسی طرح ان علوم ومعارف سے کوئی شخص آگاہ نہیں جو قرآن میں مذکور ہیں ۔ غرض یہ ہے کہ قرآن کے کلام اللہ ہونے پر سب سے بڑی دلیل اس کی وسعت معانی اور ذخارت معلومات ہے ۔ کیا کوئی انسان اتنا بلیغ ، اتنا جامع اور جملہ ضروریات انسانی کو پورا کرنے والا کلام پیش کرسکتا ہے ایک ایسا کلام جس میں عقائد بھی ہوں ، اخلاق کی تفصیل بھی اور معاشرت کی گتھیاں بھی سلجھائی گئی ہوں جس میں اقوام وملل کے حالات ہوں اور نفسیات عروج وزوال کی داستان بھی وہ ، جس میں ہجرت انگیز پیشگوئیاں ہوں اور غیب کا ایک بہت بڑا مجموعہ ہو ، جس کا انداز بیان بالکل فطری جازب اور حیران کن طور پر معجزانہ ہو جس کے متعلق ساری دنیا کو مقابلہ کی دعوت دی جائے جس کا کو سن کر بڑے بڑے فصحاء لکھنا چھوڑ دیں ، قوم میں ایک انقلاب عظیم پیدا کر دکے جو مردوں میں جان ڈال دے زندوں کو عروج ارتقاء کے پایہ بلند تک پہنچا دے جیسا عظیم الرحمت کلام یقینا انسان کی وسعت سے باہر ہے ۔