وَلْيَسْتَعْفِفِ الَّذِينَ لَا يَجِدُونَ نِكَاحًا حَتَّىٰ يُغْنِيَهُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ ۗ وَالَّذِينَ يَبْتَغُونَ الْكِتَابَ مِمَّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ فَكَاتِبُوهُمْ إِنْ عَلِمْتُمْ فِيهِمْ خَيْرًا ۖ وَآتُوهُم مِّن مَّالِ اللَّهِ الَّذِي آتَاكُمْ ۚ وَلَا تُكْرِهُوا فَتَيَاتِكُمْ عَلَى الْبِغَاءِ إِنْ أَرَدْنَ تَحَصُّنًا لِّتَبْتَغُوا عَرَضَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۚ وَمَن يُكْرِههُّنَّ فَإِنَّ اللَّهَ مِن بَعْدِ إِكْرَاهِهِنَّ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
” اور جونکاح کرنے کے وسائل نہ پائیں انہیں چاہیے کہ پاک دامنی اختیار کریں یہاں تک کہ اللہ اپنے فضل سے ان کو غنی کردے اور تمہارے غلاموں میں سے جو مکاتبت کے لیے کہیں ان سے مکاتبت کیا کرو، اگر تمہیں معلوم ہو کہ ان میں شعور ہے تو ان کو اس مال میں سے دو جو اللہ نے تمہیں دیا ہے۔ اور اپنی لونڈیوں کو اپنے دنیوی فائدوں کی خاطر قحبہ گری پر مجبورنہ کرو جب کہ وہ پاکدامن رہنا چاہتی ہوں جو کوئی ان کو مجبور کرے تو جبر کی وجہ اللہ لونڈی کو معاف کرنے اور مہربانی فرمانے والا ہے۔
غیر شادی شدہ لوگوں کے لیے ایک نسخہ : (ف2) یعنی جو لوگ شادی شدہ کا مقدور نہ رکھتے ہوں وہ جذبات پر قابو رکھیں حضور نے فرمایا ’’يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ، مَنْ اسْتَطَاعَ مِنْكُمْ الْبَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ، فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ، وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ، فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ، فَإِنَّهُ لَهُ وِجَاء ‘‘ (ترجمہ : نوجوانو ! تم میں جو لوگ شادی کا مقدور نہ رکھتے ہوں وہ ضرور شادی کریں کیونکہ اس طرح انسان کا کرکٹر محفوظ ہوجاتا ہے ۔ اور جو شادی کا مقدور نہ رکھتے ہوں وہ روزے رکھیں ، کیونکہ اس طریق سے ضبط نفس کا سامان پیدا ہوجاتا ہے ۔ غلامی اور مکاتبت : (ف1) اسلام غلامی کو طبعا ناپسند کرتا ہے اس لیے اس نے غلامی کے متعلق ایسی شروط و قیود کا اضافہ کردیا ہے کہ اس سے عملا یہ مفقود ہوجائے ۔ مکاتبت کے معنی ہوتے ہیں کہ غلام سے کہہ دیا جائے کہ تو اگر اتنی رقم مجھ کو ادا کردے تو آزاد ہے ۔ قرآن حکیم کہتا ہے کہ باحیثیت مسلمان جس کے ہاں غلام ہیں ان سے اگر وہ مکاتبت کی درخواست کریں تو ان کو چاہیے کہ وہ قبول کرلیں جبکہ یہ بھی چاہیے کہ اس سلسلہ میں ان کی مدد کریں اور اپنی طرف سے بھی دیں ۔ ﴿إِنْ أَرَدْنَ﴾میں ﴿تَحَصُّنًا﴾ کی قید واقعی ہے ، احترازی نہیں ، یعنی بعض لونڈیاں چاہتی تھیں کہ عفت و عصمت کی زندگی بسر کریں مگر ان کے مالک انہیں بدکاری پر مجبور کرتے تھے ، قرآن کہتا ہے کہ اگر ان کے دل میں بدکاری کے خلاف نفرت کا جذبہ موجود ہے تو تم کیوں ان کو اس ذلیل کام پر مجبور کرتے ہو ، کیا تم دنیوی مال و دولت کے لیے ایک عفیف لونڈی کو زنا پر ابھارتے ہو ، کہ وہ اس طرح تمہیں کما کر کھلائے ۔ ﴿غَفُورٌ رَحِيمٌ﴾کا تعلق لونڈیوں سے ہے یعنی ان کے مالک اگر ان کو مجبور کریں اور وہ دل میں اس کو ناپسند کرتی ہوں اور نفرت و بیزاری کا اظہار کرتی ہوں تو پھر اللہ ان کی معذوریوں سے آگاہ ہے ۔ حل لغات : تَحَصُّنًا: پاکبازی ۔