سورة النور - آیت 19

إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَن تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۚ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” جو لگ چاہتے ہیں کہ ایمان والوں کی جماعت میں بے حیائی پھیلے وہ دنیا اور آخرت میں دردناک سزا کے مستحق ہیں۔ اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ (١٩)

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

واقعہ افک منافقین کی انتہائی خباثت باطنی اور شقاوت قلبی کا مظاہرہ تھا ، اور اس میں بعض صحابہ بھی سادگی سے شریک ہوگئے تھے ۔ اور کئی صحابہ بشری لغزش سے عائشہ عفیفہ (رض) عنہا کے متعلق جھوٹے افسانوں سے دلچسپی لینے لگے ہر محفل اور ہر مجلس میں یہی چرچا اور یہی باتیں ہونے لگیں جس کی وجہ سے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سخت اذیت اور قلبی کوفت محسوس کی اور بالآخر برات کے لئے یہ آیات نازل ہوئیں ، اور بہتان لگانے والوں کی پشت پر اسی اسی درے لگائے گئے اس سے صحابہ کی جماعت میں جو غلط فہمیاں پھیل رہی تھیں وہ تو رک گئیں مگر منافقین اس کے بعد بھی مزے لے لے کر اس قصہ کو بیان کرتے رہے ۔ قرآن کی اس آیت میں ان لوگوں کو متنبہ کیا ہے کہ خبردار جو تم نے اس جرم کا ارتکاب کیا ، یاد رکھو مسلمانوں میں بےحیائی کی باتوں کو پھیلانا بہت بڑی معصیت ہے ، اگر تم باز نہ آئے تو دنیا وعقبی میں تمہارے لئے المناک عذاب مقرر ہے ۔