سورة الحج - آیت 63

أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ أَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَتُصْبِحُ الْأَرْضُ مُخْضَرَّةً ۗ إِنَّ اللَّهَ لَطِيفٌ خَبِيرٌ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ آسمان سے پانی برساتا ہے۔ پانی کی بدولت زمین سرسبز ہوجاتی ہے ؟ حقیقت یہ ہے کہ وہ لطیف وخبیر ہے۔ (٦٣)

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

مستور معانی کی جھلک : (ف ١) قرآن حکیم میں یہ خوبی ہے کہ وہ مشاہدات قدرت سے عجیب عجیب استدلال کرتا ہے اور وجہ استدلال کو بعض دفعہ بیان نہیں کرتا ، تاکہ ذہن پر زیادہ زور پڑے ، اور پوشیدہ معارف کو حاصل کرکے وہ ایک نوع کی روحانی مسرت محسوس کرے ۔ اس آیت میں کہنے کو تو ایک صریح حقیقت بیان کی ہے کہ دیکھو بارش کے بعد خشک زمین کیسی سرسبز ہوجاتی ہے ، مگر آخری الفاظ (آیت) ” ان اللہ لطیف خبیر “۔ پر غور کرنے سے معلوم ہوگا کہ پس پردہ معافی اور معارف کا قصر بلند موجود ہے ، یعنی کفار کی توجہ کو اللہ کے لطف عمیم کی جانب مبذول کیا ہے تاکہ وہ اسلام کی ضرورت واہمیت کو سمجھ سکیں ۔ جب اللہ تعالیٰ کے لطف وکرم اور علم وحکمت کا تقاضا یہ ہے کہ مینہ برسا کر خشک اور بےرونق زمین بھی سرسبز وشاداب کردی جاتی ہے ، تو کیا تمہارے دلوں کی شادبی کے لئے اس نے ابر رحمت کے برسانے میں بخل سے کام لیا ہے ، یا وہ تمہاری روحانی تشنیگوں سے بےخبر ہے ، جب تم تسلیم کرتے ہو تو وہ لطیف ہے یعنی نہایت نیکو کار اور مددگار ہے اور خیبر یعنی آگاہ ہے تو پھر ضروری ہوجاتا ہے کہ وہ تمہیں سچے مذہب سے آشنا کرے اور تمہاری دلوں کی دنیا کو تسکین طمانیت کا سامان بہم پہنچائے ، یہ آیت بھی اسی قبیل سے ہے یعنی مقصود کرشمہ کر رکھا ہے مگر ربط اور سیاق سے مطلب بالکل واضح ہے یعنی دلوں کی دنیا کو دل دینا ہماری طاقت وقوت سے باہر نہیں ہم تمہاری عناد کو محبت کے ساتھ اور تمہارے کفر کو ایمان کے ساتھ بدل سکتی ، میں کیونکر یہاں آسمان وزمین میں جو کچھ ہے وہ ہمارے ہیں ۔