وَأَذِّن فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالًا وَعَلَىٰ كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِن كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ
” اور لوگوں میں حج کے لیے اعلان کرو کہ وہ تمہارے پاس ہر دوردراز مقام سے پیدل اور اونٹوں پر سوار ہو کر آئیں۔“ (٢٧)
حج کا فلسفہ : (ف ٢) بیت اللہ جو آج تمام مسلمانوں کا روحانی مرکز ہے ، اس کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اللہ کی ہدایات کے ماتحت تعمیر کیا ، اللہ تعالیٰ کو یہ منظور تھا ، کہ اس مقام کو تمام اسلامی دنیا کے لئے روحانی اعتبار سے ملجاوماوی بنا دیا جائے ، چنانچہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی کوششیں منظور ہوئیں ، اور وہ آواز جو جنگل میں ابراہیم (علیہ السلام) کے منہ سے نکلی تھی ، ہر خدا پرست کے کانوں تک پہنچی ، اور آج تک اس کا یہ اثر ہے ، کہ دنیا کے اکناف واطراف سے لوگ کھنچے ہوئے اس مرکز رشد وہدایت کی طرف چلے آرہے ہیں ، دیکھئے کتنا خلوص اور کس درجہ روحانیت اور مقبولیت ہے کہ وہ گھر جو صنعت وحرفت کے اعتبار سے بالکل سادہ ہے جو وادی غیر ذی زرع میں بنایا گیا ہے ، آج تمام ملت ابراہیم (علیہ السلام) کی عقیدت وجاذبیت کا مقام ہے ، بات یہ ہے کہ کوئی شخص کہیں ہو ، اگر محبت وعشق کے ساتھ کوئی کام کرے تو اس کا قبول ہونا قطعی اور یقینی ہے ، کیونکہ شہرت اور قبولیت کے لئے صرف اخلاص ہی ایک ضروری چیز ہے ، جس کو شرط واساس قرار دیا جا سکتا ہے ۔ باقی اسباب وذرائع خود بخود پیدا ہوجاتے ہیں ، (آیت) ” لیشھدوا منافع “۔ کہہ کر یہ اشارہ کیا ہے ، کہ حج صرف عبادت ہی نہیں ، بلکہ بہت سے ملی وانفرادی فوائد اس سے وابستہ ہیں ، اگر مسلمان حج کے فوائد سے کما حقہ استفادہ کریں تو حقیقت یہ ہے کہ کبھی پست اور ذلیل نہ ہوں کیونکہ تجارتی اور اقتصادی لحاظ سے حج میں بےشمار منافع ہیں ۔ پھر یہ دیکھئے کہ حج کے لئے سب طرف کے لوگ آتے ہیں ، اور اس طرح موقعہ ملتا ہے ، کہ تمام ملکوں اور قوموں میں ایک ثقافتی اتحاد وتعاون پیدا ہو ، اور سیاسی طور پر ایک دوسرے کی مشکلات پر غور کریں ، اتنے بڑے موقع سے فائدہ نہ اٹھانا بہت بڑی محرومی ہے ۔ حل لغات : العاکف : مقیم ۔ الباد : مسافر ، باہر سے آنے والا ، بوانا : جگہ دی ، جگہ بتلا دی ، یہاں جگہ مقرر کرنے سے ہے ، ضامر : دبلی پتلی اونٹنی جو بہت تیز رفتار ہوتی ہے ۔ ، ایام معلومت : ایام قربانی ۔ حرمت : قابل عزت اور ادب کی چیزیں شعائر واحکام :