تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ ۘ مِّنْهُم مَّن كَلَّمَ اللَّهُ ۖ وَرَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجَاتٍ ۚ وَآتَيْنَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنَاتِ وَأَيَّدْنَاهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ ۗ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا اقْتَتَلَ الَّذِينَ مِن بَعْدِهِم مِّن بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَيِّنَاتُ وَلَٰكِنِ اخْتَلَفُوا فَمِنْهُم مَّنْ آمَنَ وَمِنْهُم مَّن كَفَرَ ۚ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا اقْتَتَلُوا وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يَفْعَلُ مَا يُرِيدُ
یہ رسول ہیں جن میں سے ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے، ان میں سے بعض وہ ہیں جن سے اللہ نے کلام فرمایا ہے اور بعض کے درجات بلند کئے ہیں اور ہم نے عیسیٰ بن مریم کو معجزات عطا فرمائے اور روح القدس سے اس کی تائید فرمائی۔ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو ان کے بعد والے لوگ دلائل آجانے کے بعد ہرگز آپس میں لڑائی جھگڑا نہ کرتے۔ لیکن انہوں نے اختلاف کیا، ان میں سے بعض تو ایمان لائے اور بعض نے کفر کیا اور اگر اللہ تعالیٰ چاہتاتو یہ آپس میں نہ لڑتے لیکن اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے کرتا ہے
انبیاء کے درجے : (ف1) نفس نبوت میں تو اللہ تعالیٰ کے تمام رسول (علیہ السلام) برابر کے شریک وسہیم ہیں ، مگر حالات واستعداد کے ماتحت سب ایک دوسرے سے مختلف اور الگ الگ ہیں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) وصف خلت میں ممتاز ہیں ، ﴿اتَّخَذَ اللَّهُ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلًا﴾حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو شرف مکاملہ سے سرفراز کیا گیا ،﴿وَكَلَّمَ اللَّهُ مُوسَى تَكْلِيمًا﴾ اور حضرت مسیح (علیہ السلام) کو روح القدس کی تخصیص سے نوازا گیا اور بعض ایسے بھی ہیں جن کا ذکر نہیں کیا گیا ، مگر ان کے مراتب بھی اعلی بلند ہیں﴿وَرَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجَاتٍ﴾ مقصد یہ ہے کہ سب خداكے فرستادہ ہیں ، سب اس کے پیارے ہیں سب کو درجہ محبوبیت پر فائز کیا گیا ہے ، اس لئے ان کے نام نزاع اور جنگ جائز نہیں یہی مقصد ہے اس حدیث کا جس میں حضور (ﷺ) نے فرمایا ” لاَ تُفَضِّلُوا بَيْنَ الْأَنْبِيَاءِ “ یعنی انبیاء کے درمیان مفاضلہ پیدا نہ کرو ، روح القدس سے یا تو جبرائیل (علیہ السلام) مراد ہیں ، حضرت حسان (رض) کا شعر ہے ۔ وجبریل رسول اللہ فینا ورح القدس لیس لہ کفاء جبریل (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے رسول اور روح القدس ہماری تائید کے لئے ہم میں موجود ہیں ، ان کا مقابلہ کرنا ناممکن ہے ، اور یا روح سے مراد انجیل ہے کیونکہ اس میں زیادہ تر روحانی اصلاح سے تعرض کیا گیا ہے ۔ چنانچہ قرآن حکیم کو بھی روح اللہ کا خطاب دیا گیا ہے ارشاد ہے ﴿وَكَذَلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُوحًا مِنْ أَمْرِنَا﴾۔اقدس کے معنی مقدس کے ہوں گے ، یعنی ایسی کتاب جو تزکیہ وتقدیس کے لئے نازل کی گئی ہو ، مطلب بہرحال یہ ہے کہ تمام انبیاء كا احترام کرو ، سب میں فضائل ومزا یا کا معتد بہ حصہ ہے ۔ تمام انبیاء میں رسول اللہ (ﷺ) کا درجہ کیا ہے ؟ بس یہ سمجھ لو ، ان تمام خوبیوں کا جو فردا فردا تمام رسل میں پائی جاتی ہیں ، اگر کسی ایک انسان میں جمع کردی جائیں تو وہ حضور (ﷺ) ہیں ۔ آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری اس لئے کہ آپ (ﷺ) سے پہلے جتنے پیغمبر آئے وہ محدود وقت اور متعین گروہوں کے لئے مبعوث ہو کر آئے تھے ، مگر آپ کی نبوت زمان وقوم کی حدود سے باہر ہے آپ (ﷺ) ہر قوم اور ہر زمانے کے لئے پیغمبر (ﷺ) ہیں یہی وجہ ہے کہ آپ (ﷺ) کے فضائل غیر محدود اور لاتحصی ہیں ۔ (ف2) ان آیات میں بتایا کہ باوجود حضور (ﷺ) کی فضیلت ودرجات کے بعد لوگ منکر رہے ۔ یہ اس لئے کلیۃ کفر کا اٹھ جانا اللہ کی مرضی پرموقوف ہے ۔ وہ چاہے تو دنیا میں کوئی اختلاف باقی نہ رہے ، مگر وہ کسی شخص کو ایمان پر مجبور نہیں کرتا ، ہر شخص اپنے عقیدہ میں آزاد ہے ، اس لئے کفر ومخالفت کا ہونا بھی ناگزیر ہے ۔