سورة الأنبياء - آیت 73

وَجَعَلْنَاهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا وَأَوْحَيْنَا إِلَيْهِمْ فِعْلَ الْخَيْرَاتِ وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ ۖ وَكَانُوا لَنَا عَابِدِينَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اور ہم نے ان کو امام بنا دیا وہ ہمارے حکم سے رہنمائی کرتے تھے اور ہم نے انہیں وحی کے ذریعے نیک کاموں اور نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے کی ہدایت کی۔ وہ ہماری عبادت کرنے والے تھے۔“ (٧٣)

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

(ف ١) اللہ تعالیٰ کا قانون ہے کہ جو لوگ اس سے محبت رکھتے ہیں اور اس کے لئے دنیا کی تمام لذتوں اور رشتوں کو قربان کردیتے ہیں ، وہ ان کو دنیا میں خیروبرکت کا بڑا حصہ دار بنا دیتا ہے ، اور ان کو عام دنیا داروں سے کسی طرح کم حیثیت میں نہیں رہنے دیتا ، چنانچہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جب اللہ کی راہ میں اپنا سب کچھ تیاگ دیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو مال ودولت سے نوازا اور اولاد صالح عطا کی ، جو سب کے سب منصب قیادت وامامت پر فائز ہوئے اور اس سے بڑھ کر اور کیا مسرت ہوسکتی ہے ، کہ ایک شخص اپنی اولاد کو اپنے سامنے کامیاب وکامران دیکھے اسی طرح ارشاد فرمایا کہ ہم نے لوط کو جو ابراہیم (علیہ السلام) کے رشتہ دار تھے ، نجات دی ، اور ایک نہایت بدبخت اور رسوا قوم سے مخلصی عنایت کی ، پھر نوح (علیہ السلام) نے جب پکارا اور قوم کی بدکرداری کے خلاف احتجاج کیا ، تو ہم نے اس کی بھی سنی ، اور تمام قوم کو جو نافرمان اور سرکش تھی فنا کے گھاٹ اتار دیا ، غرض یہ ہے کہ ہم اپنے بندوں کی دعاؤں کو ہر وقت سنتے ہیں اور ان کی ضرورتوں کو پورا کرتے ہیں ۔ حل لغات : نافلۃ : عطیہ خاصہ ۔ وہ شخص جو بہت زیادہ سخی ہو ، اسے نوفل کہتے ہیں ۔ ائمۃ : امام کے جمع ہے ، بمعنے پیشوا ۔ حکما : پیغمبرانہ فہم و ادراک ۔