سورة الأنبياء - آیت 62

قَالُوا أَأَنتَ فَعَلْتَ هَٰذَا بِآلِهَتِنَا يَا إِبْرَاهِيمُ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

انہوں نے پوچھا کیوں ابراہیم تو نے ہمارے خداؤں کے ساتھ یہ کچھ کیا ہے ؟

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی تدبیر اصلاح ! : (ف1) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اس قصہ کو اگر اس حدیث کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے اور اس کے عام مفہوم کو مد نظر رکھا جائے ، جو لوگوں میں مشہور ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس مقام پر جھوٹ بولا تو طبیعت میں سخت خلجان پیدا ہوتا ہے ۔ اور معلوم ہوتا ہے کہ صحیح حدیث بھی قرآن کے مخالف مفہوم کو بیان کرسکتی ہے اور یا پھر انبیاء سے کذب کا صدور ممکن ہے ، اور یہ دونوں باتیں غلط ہیں ، نہ حدیث قرآن کے مخالف ہے ، اور نہ قرآن میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی تکذیب کا کہیں ذکر ہے ، اس سلسلہ میں ذیل کی باتیں پیش نظر رہنا چاہئیں ۔ 1۔ قرآن میں ابراہیم (علیہ السلام) کو صدیق کے لقب سے ملقب کیا گیا ہے ، 2۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے بت پرستوں سے کہدیا تھا ، کہ میں تمہارے بتوں کو توڑ پھوڑ ڈالوں گا ۔ 3۔ بت پرستوں کو معلوم تھا کہ یہ سب ابراہیم (علیہ السلام) کی کاروائی ہے ، اس لئے صاف ظاہر ہے کہ ﴿بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَذَا﴾کہنے سے مقصد واقعہ کا اخفاء نہیں ، بلکہ ایک لطیف پیرائے میں کفار کو متنبہ کرنا ہے کہ بےوقوفو ! جو بت کہ قوت گویائی اور نطق سے محروم ہیں ، اور اپنی حالت زار بھی بیان نہیں کرسکتے ، وہ تمہارے خدا کیونکر ہو سکتے ہیں ؟ چنانچہ جب ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا ، کہ اس بڑے بت نے یہ کیا (ہوگا) اس سے پوچھ لو تو ان کی آنکھیں کھل گئیں ، اور ان کو غور کرنے سے معلوم ہوا کہ یہ بت واقعی بیکار ہیں ، اور ان کی پرستش کھلی گمراہی اور ظلم ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ بعض دفعہ معمولی بات بھی انسان محسوس نہیں کرتا ، مگر جب اس کو ذرا چونکا دیا جاتا ہے ، تو وہ غور سے اصل حالات کا مطالعہ کرتا ہے ، اور اپنی غلطی پر متنبہ ہوجاتا ہے ، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) چونکہ اس حکیمانہ اصول نفسی سے واقف تھے ، اس لئے انہوں نے بہ طریق اصلاح اختیار کیا ، اور اس میں ان کو کامیابی ہوئی ، کون کہہ سکتا ہے کہ یہ جھوٹ ہے یہ تو نہایت عقلمندی اور دانائی ہے یعنی تدبر وتدبیر ہے ۔ اب رہا یہ معاملہ کہ حدیث میں اس کو کذبات میں شمار کیا گیا ہے تو اس کے متعلق ذیل کے نکات غور طلب ہیں ۔ (1) ۔ کذب عربی میں جھوٹ کا بالکل مترادف لفظ نہیں ہے ، بلکہ ہر بات جو بظاہر خلاف واقعہ ہو ، مگر اس سے مقصود کوئی بلند چیز ہو اس پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے ۔ (2) ۔ حدیث میں کذبات کا ذکر باب معاریض میں ہے یعنی غرض مخالف کی سادگی سے فائدہ اٹھاتا ہے ۔ (3) ۔ حدیث میں ابراہیم (علیہ السلام) کے کذبات کا بیان اس طرح ہے کہ میدان حشر میں ان کو سفارش کرنے میں بدیں وجہ تامل ہوگا ، کہ ان سے نیک نیتی کے ساتھ سے ان لغزشوں کا صدور ہوتا ہے گویہ واقعہ اور دوسرے دو واقعے جھوٹ نہیں ہیں ۔ مگر انبیاء کا مقام چونکہ خشیت وخوف اور پاکبازی کے لحاظ سے بہت بلند ہے ، اس لئے وہ ان واقعات کو بھی جھوٹ کے ساتھ ادنی مماثلت ہونے کے باعث اپنے لئے معیوب سمجھیں گے ، اور سفارش کی جرات نہ فرمائیں گے ، (4) ۔ حدیث بالکل صحیح ہے ، اس کا مقصد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو کاذب ثابت کرنا نہیں ، بلکہ ان کے مرتبہ اتقاء کو ظاہر کرنا ہے ، اس لئے اس میں اور قرآن کی ان آیات میں قطعا تخالف نہیں ۔