سورة الأنبياء - آیت 3

لَاهِيَةً قُلُوبُهُمْ ۗ وَأَسَرُّوا النَّجْوَى الَّذِينَ ظَلَمُوا هَلْ هَٰذَا إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ ۖ أَفَتَأْتُونَ السِّحْرَ وَأَنتُمْ تُبْصِرُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” ان کے دل غافل ہیں اور ظالم آپس میں سرگوشیاں کرتے ہیں کہ یہ شخص تو تم جیسا ایک بشر ہے پھر کیا تم آنکھوں دیکھے جادو میں پھنس جاؤ گے؟ (٣)

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

وقت حساب قریب ہے ! : (ف ١) قرآن حکیم کا موضوع دل کی دنیا میں انقلاب پیدا کرنا ہے اور دلوں کی سختیوں اور صلابتوں کو ایمان کی لذت اور آسانیوں سے بدلنا ہے اس لئے اس کے نزدیک اصل چیز ذمہ داری کا احساس ہے خشیت وخوف کا جذبہ ، ہے ، تقوی وپرہیزگاری ہے ، ہوشیاری دانائی ہے جو لوگ قرآن کی بیدار کن آیات سنتے تو ہیں ، لیکن بےپروائی سے عمل نہیں کرتے ، قرآن ان کو غافل قرار دیتا ہے ، اور ان کے حق میں تاسف کا اظہار کرتا ہے فرماتا ہے لوگوں کے محاسبہ کا وقت قریب آگیا ہے ، اور ہر لمحہ یہ لوگ فنا کی منزل کے قریب پہنچ رہے ہیں مگر انہیں اپنی ذمہ داری کا احساس نہیں ہوتا اور جب قرآن حکیم کی آیتیں نازل ہوتی ہیں ، تو ان کی قساوت قلبی اور بڑھ جاتی ہے اور وہ ایک دوسرے سے سرگوشیاں کرنے لگتے ہیں ، کہ یہ تو ہماری طرح ایک انسان ہے گویا بشریت اور انسانیت اتنا بڑا جرم ہے کہ وہ معاف نہیں کیا جا سکتا ، پھر یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ خیالات پریشان ہیں بلکہ افترا ہے اور محض ایک شاعری ہے ، غور فرمائیے ان اعتراضات میں سے کوئی بات بھی معقول ہے ؟ کیا بشر ہونا نبوت کے منافی ہے ؟ کیا انسان کو عہدہ نبوت پر فائز نہیں ہونا چاہئے ، ؟ کیا سحر وافترادنیا میں اتنا بڑا انقلاب پیدا کرسکتے ہیں ؟ کیا خیالات پریشان زندگی کا دستور العمل بن سکتے ہیں ، اور کیا شاعری میں یہ قوت ہے کہ ٹھوس اور جچے تکے خیالات زندگی کے متعلق پیش کرسکے ۔ بات یہ ہے کہ ان کے دلوں میں چونکہ مذہب کی تڑپ نہیں تھی اور غفلت وجمود کے حجابات سے دل بےنور تھا ، اس لئے قرآن کی روشنی انہیں محسوس نہ ہوئی وہ آیات کو سنتے قیامت کے ہولناک احوال سے گوش آشنا ہوتے ، مگر طبیعت میں قطعا اثر وگداز پیدا نہ ہوتا اور تکذیب کے لئے مختلف بہانے بنا لیتے کبھی کہتے کہ یہ انسانی کلام ہے کبھی کہتے جادو ہے ، اور کبھی اسے افتراء قرار دیتے ، اور شاعری سے زیادہ وقت نہ دیتے فی الحقیقت اس نوع کے اعتراض خود ان کی پراگندگی خیالات کے آئینہ دار ہیں ، اور معلوم ہوتا ہے کہ وہ قرآن کو سمجھنے سے سراسر قاصر رہے ، کیونکہ جس قسم کے اعتراضات پیش کئے گئے ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ۔ قرب قیامت کے معنی یہ ہیں کہ موت ہر آنا یقینی ہے اور موت کے بعد اعمال کے نیک اور بد ہونے کا عالم قبر میں احساس ہوجاتا ہے اس لئے جو چیز قطعی اور ضمنی ہے اور جس کا آغاز موت کے بعد فورا ہوجاتا ہے اس کو ابھی سے محسوس کرنا چاہئے ۔ بل : کا لفظ عربی میں اضراب کے لئے استعمال ہوتا ہے یعنی پہلے جو مفہوم ذکر کیا گیا ہے ، یا سمجھ میں آتا ہے صحیح نہیں ، صحیح وہ ہے جو اس کے بعد مذکور ہے اس آیت میں لفظ بل اضراب کے لئے نہیں بلکہ استدراک کے لئے ہے یعنی جہاں وہ قرآن حکیم کو خیالات پریشان کہتے ہیں وہاں اسے افتراء سے بھی تعبیر کرتے ہیں ، اور اسے شاعری بھی قرار دیتے ہیں ۔ حل لغات : یلعبون : یعنی بےاعتنائی اور بےتوجہی برتتے ہیں ۔