سورة طه - آیت 59

قَالَ مَوْعِدُكُمْ يَوْمُ الزِّينَةِ وَأَن يُحْشَرَ النَّاسُ ضُحًى

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

موسیٰ نے کہا جشن کا دن طے ہوا اور سورج چڑھے ہی لوگ جمع ہوجائیں۔“ (٥٩)

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

جادوگروں سے مقابلہ : (ف ١) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی معقول اور مسکت بحث سے مجبور ہو آخر فرعون نے اصل سوال کی جانب توجہ منعطف کی ، مگر عجیب تلبیس اور چالاکی سے کہنے لگا اچھا تم یہ چاہتے ہو کہ اپنے جادو کے زور سے ہمیں ہمارے شہروں سے نکال باہر کرو ، ہم اس مقابلہ کے لئے تیار ہیں ، ایک دن مقرر کر دو ، ہم بھی اپنے جادوگر بلاتے ہیں ، اس دن مقابلہ ہوجائے گا ، اور معلوم ہوگا ، کہ کون زیادہ کامیاب اور فتحیاب ہے ۔ موسی (علیہ السلام) نے اس خیال سے کہ اسے معلوم تو ہو کہ جادو کی حقیقت کیا ہے ، اور معجزہ وسحر میں کیا فرق ہے ، اس اعلان مبازرت کو قبول فرما لیا اور کہا یوم الزینہ کو تم آجانا میلہ کی وجہ سے لوگوں کا ہجوم بھی ہوگا اور بھرے مجمع میں اس حقیقت کے اظہار کا موقع ملے گا کہ تائیدات غیبی کس کے ساتھ ہیں یوم الزینہ سے مراد وہ دن ہے جس روز قبطی اور اسرائیلی ، یا صرف قبطی سج دھج کر جشن مناتے تھے قرآن میں اس دن کی تعین موجود نہیں ، حضرت ابن عباس (رض) کا خیال ہے کہ عاشوراء کا دن تھا ، فرعون کی ستم ظریفی دیکھئے کہ آزادی واستقلال کے مطالبہ کو کس غلط رنگ میں دیکھتا ہے ، بات صرف اتنی ہے کہ بنی اسرائیل غلام ہیں ، مظلوم ہیں چار سو سال سے نہایت ذلیل زندگی بسر کر رہے ہیں ، اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو بھیجا ، کہ وہ ان کی غلامی کی زنجیریں کاٹ دیں ، فرعون یہ سمجھتا ہے کہ یہ سب کوششیں ہمیں ہمارے املاک سے محروم کرنے کے لئے ہیں ، اور آزادی واستقلال بجائے خود کوئی چیز نہیں ۔ حل لغات : موعدا : ظرف زمان ومکان دونوں کے لئے آتا ہے ، کیدہ تدبیر ، مکر ۔