أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُم مَّثَلُ الَّذِينَ خَلَوْا مِن قَبْلِكُم ۖ مَّسَّتْهُمُ الْبَأْسَاءُ وَالضَّرَّاءُ وَزُلْزِلُوا حَتَّىٰ يَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ مَتَىٰ نَصْرُ اللَّهِ ۗ أَلَا إِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَرِيبٌ
کیا تم یہ گمان کئے بیٹھے ہو کہ تم جنت میں ایسے ہی داخل ہوجاؤ گے ؟ حالانکہ اب تک تم پر وہ حالات نہیں آئے جو تم سے پہلے لوگوں پر آئے تھے۔ انہیں تنگیاں اور مصیبتیں پہنچیں اور وہ جھنجھوڑ دیے گئے حتی کہ رسول اور اس پر ایمان لانے والے پکار اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی؟ سنو اللہ کی مدد قریب ہے
راہ عشق کی دشواریاں : (ف ١) غزوہ احزاب میں جب مسلمانوں کے خلاف عرب کی تمام قومیں جمع ہو کر چڑھ آئیں اور اسلام کفر کے عین درمیان گھر گیا تو اس وقت بعض کمزور دل مسلمان گھبرا گئے ، منافقین کو موقع ملا اور انھوں نے ان کی کمزوریوں سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کو اسلام سے برگشتہ کرنے کی ٹھانی اور کہا کہ دیکھو اگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سچے ہوتے تو آج اس طرح کیونکر کفار کے نرغے میں پھنس جاتے ، اس پر یہ آیات نازل ہوئیں ، جس سے دل مضبوط ہوگئے اور نور یقین سے جگمگا اٹھے اور منافقین کا پھیلایا ہوا ہم رنگ زمین جال تار تار ہوگیا ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ، اتنی سی آزمائش میں گھبرا گئے ہو ، ہم تک پہنچنے کے لئے کس قدر مصائب جھیلنا پڑتے ہیں ؟ تم سے پہلی قوموں لے کیا کیا دکھ اٹھا لئے ؟ کیا کیا سختیاں برداشت کیں ؟ جانتے ہو ان پر مصائب وحوادث کے پہاڑ ٹوٹ پڑتے ، انہیں دار پر کھینچا گیا ، انہیں زندہ جلایا گیا ، انہیں تنگدستی وافلاس کے ہولناک دوروں سے گزرنا پڑا ، مگر پھر بھی ایمان کو ہاتھ سے نہیں جانے دیا ، مصیبتیں اس قدر آئیں کہ ان کے پاؤں اکھڑ گئے ابتلا اور آزمائش کی سخت گھڑیوں میں ان کے پاؤں نہیں جمتے تھے ۔ رسول جو پیکر صبر وعزیمت ہوتے ہیں ، چلا اٹھے کہ (آیت) ” متی نصر اللہ “۔ خدایا ! کب مدد پہنچے گی ؟ جب جا کر اللہ نے ان کی سنی اور نصرت واعانت سے انہیں نوازا اور تم ہو کہ یونہی گھبرا گئے ہو ۔ یہ قاعدہ ہے کہ مقصد یا نصب العین جس قدر بلند اور عظیم ہوگا ، اس کا حصول اسی قدر کٹھن ہوگا ۔ اللہ کی رضا ، اس کی خوشی جس پر ہماری تمہاری مسرتیں قربان ہیں ‘ کتنا بلند مقصد ہے ، اس لئے ضرور ہے کہ اس کا حصول بھی مشکل ہو ، ان آیات میں یہی بتایا گیا ہے کہ راہ کی دشواریوں سے سالک گھبرا نہ جائے ، راستے میں قدم قدم پر ابتلاء وآزمائش کے کانٹے بچھے ہیں ، سب سے الجھنا ہوگا ، چپہ چپہ اور گوشے گوشے میں حرص وآز کے جال میں بچھے ہیں جن سے ایک دم دامن بچا کے نکل جانا ہوگا اور یہ کہنا ہوگا ۔ ہزار دام سے نکلا ہوں ایک جنبش میں جسے غرور ہو آئے کرے شکار مجھے :