سورة البقرة - آیت 210

هَلْ يَنظُرُونَ إِلَّا أَن يَأْتِيَهُمُ اللَّهُ فِي ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ وَالْمَلَائِكَةُ وَقُضِيَ الْأَمْرُ ۚ وَإِلَى اللَّهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

کیا لوگوں کو اس بات کا انتظار ہے کہ ان کے پاس خود اللہ تعالیٰ اور فرشتے بادلوں کے سائے میں آئیں اور فیصلہ کردیا جائے اور اللہ ہی کی طرف تمام کام لوٹائے جاتے ہیں

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

خدا کی آمد : (ف1) وہ لوگ جو منکر ہیں ان کو ہرچند دلائل وبراہین سے قائل کرنے کی کوشش کی گئی ، لیکن وہ بغض وعناد پر ہی قانع رہے یعنی جب انہیں عاقبت کی سختی سے ڈرایا جاتا تو وہ کہتے ، ہم نہیں ماننے کے ، ہم پر کیوں عذاب نہیں آجاتا ، آخر اس میں تامل کیا ہے ؟ چنانچہ قرآن حکیم نے ان کے اس مقولے کو نقل فرمایا ﴿فَأَسْقِطْ عَلَيْنَا كِسَفًا ﴾ یعنی ہم پر آسمان ٹوٹ پڑے ، ہم بالکل اس کے لئے آمادہ ہیں ۔ اس آیت میں بھی ان کی اس ذہنیت کو ظاہر کیا گیا ہے کہ ان کی سرکشیاں حد سے گزر گئی ہیں اور عذاب الہی کے سوا یہ مجاز ہے مقصد عذاب الہی کی آمد ہے ، قرآن حکیم نے اس طرح کے انداز بیان کو دوسری جگہوں میں استعمال کیا ہے ۔ جیسے﴿ فَأَتَى اللَّهُ بُنْيَانَهُمْ مِنَ الْقَوَاعِدِ﴾یا ﴿فَأَتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ حَيْثُ لَمْ يَحْتَسِبُوا﴾ورنہ وہ ہر طرح کی جسمانیت سے پاک اور برتر ہے ۔