سورة الإسراء - آیت 70

وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَىٰ كَثِيرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اور بلاشبہ ہم نے آدم کی اولاد کو عزت بخشی اور انھیں خشکی اور تری میں سوار کیا اور انھیں پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا اور ہم نے جو مخلوق پیدا کی ان میں بہت سی مخلوق پر انھیں فضیلت عطا کی۔“ (٧٠)

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

(ف ١) اسلام سے قبل انسان کو فی نفسہ گناہگار اور مجرم قرار دیا جاتا تھا ، انسان کے لئے ضروری تھا کہ وہ کائنات کی ہر چیز کا احترام کرے وہ پہاڑوں کے سامنے جھکے دریاؤں کو پوجے بتوں کو سجدہ کرے ، آفتاب ماہتاب اور ستاروں کو معبود سمجھے سانپ اور بچھوؤں کو دیوتا قرار دے ، صندل کی معمولی لکڑی اس کی جبین ناز کا قشقشہ بنے ہر آن ان معبودوں سے خائف رہے ، دنیا کی ہر چیز کو قابل عبادت سمجھے ۔ قرآن نے انسان کے مرتبہ کو بلند قرار دیا جنت اس کا مسکن ٹھہرایا اور فرشتے اس کی تعلیم کے لئے جھکے ، احسن تقویم اور تکریم کا خلعت عطا ہوا ، اور طے پایا کہ انسانی مخلوق کائنات کی ہر شے سے افضل ہے ، بحر وبر کی حکومتیں اس کے سپرد ہیں چاند اور ستارے اس کے مسخر ہیں ، سورج اس کا خادم ہے ، اللہ تعالیٰ نے اسے عزت دی ہے اسے مکرم ومحترم بنایا ہے ۔ ابروبادومہ وکورشید فلک کا راند تا تونانے بکف آوری اجلت نخوری ۔ ہمہ از بہر تو سرگشتہ وفرماں بردار شرط انصاف بنا شد کہ تو فرمان نبری ۔ حل لغات : حاصبا : اگر حصب سے مشتق ہو ، تو اس کے معنی شدت سے پھینکنے کے ہوں گے اور اگر حصباء سے نکلا ہو ، تو اس صورت سنگریزے برسانے والی آندھی یا اولے برسانے والے ابر ہونگے ، کیونکہ حصباء کے معنی پتھر اور کنکر کے ہیں ۔ قاصفا : قصف کے معنی توڑنا ، وہ تیز ہوا جو درختوں کو اکھاڑ دے اور سخت آواز ۔ تبیعا : تعاقب کرنے والا ۔ بامامھم : امام کے معنی عربی میں قابل اقتدار کے ہیں یہاں مفسرین نے پانچ معانی بیان فرمائے ہیں ۔ ١۔ نبی مراد ہیں حضرت ابوہریرہ (رض) سے مرفوعا روایت ہے ، ٢۔ کتاب اعمال مراد ہے ، حسن ربیع اور ابولبابہ کا یہی مذہب ہے ، ٣۔ مذہبی کتب مثل قرآن وتوریت وغیرہ مقصود ہے ، ٤۔ ام کی جمع ہے یعنی ہر شخص کو اس کی ماں کے نام سے پکارا جائے گا اہل زبان اس تاویل کو لغۃ کمزور خیال کرتے ہیں ۔ ٥۔ ملک راسخہ جس سے تمام عادات منشعب ہوں یعنی ہر شخص میں کچھ عادات اس نوع کی ہوتی ہیں ، جنہیں مرکزی اور اساسی عادات کہا جا سکتا ہے اصل میں یہی عادات مواخذہ کے قابل ہوتی ہیں ۔