سورة الإسراء - آیت 59

وَمَا مَنَعَنَا أَن نُّرْسِلَ بِالْآيَاتِ إِلَّا أَن كَذَّبَ بِهَا الْأَوَّلُونَ ۚ وَآتَيْنَا ثَمُودَ النَّاقَةَ مُبْصِرَةً فَظَلَمُوا بِهَا ۚ وَمَا نُرْسِلُ بِالْآيَاتِ إِلَّا تَخْوِيفًا

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اور ہمیں کسی چیز نے نہیں روکا کہ ہم نشانیاں دے کر بھیجیں مگر اس بات نے کہ پہلے لوگوں نے انھیں جھٹلا دیا اور ہم نے ثمود کو اونٹنی واضح نشانی کے طور پر دی تو انھوں نے اس پر ظلم کیا اور ہم نشانیاں دے کر نہیں بھیجتے مگر ڈرانے کے لیے۔“ (٥٩)

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

(ف ١) مشرکین کا ایک اعتراض یہ تھا کہ ہمارے مطالبے کیوں پورے نہیں ہوتے ؟ کیوں مکہ کے پہاڑ درمیان سے نہیں ہٹ جاتے ؟ اور کیوں نہریں نہیں بہتیں ؟ یعنی ہم جو کچھ چاہتے ہیں ، اس کو کیوں پورا نہیں کیا جاتا ؟ قرآن کہتا ہے ، تمہیں معجزہ طلبی کی عادت ہوگئی ہے ، تم عجائب پرستی کے مرض میں مبتلا ہو ، تم سے پہلے تمام معجزات دکھائے جا چکے ہیں ، مگر انکار کرنے والوں نے ہمیشہ انکار ہی کیا ، اور ایماندار لوگوں نے ایمان کی دعوت کو قبول کرلیا ، اس لئے آج اگر تمہارے مطالبوں کو پورا بھی کردیا گیا ، جب بھی تم انکار ہی کرو گے تم سے ایمان کی توقع نہیں ، آیات ومعجزات کا مقصد تو یہ ہے کہ تمہارے دلوں میں خوف پیدا ہو ، تم اللہ سے ڈرو ، اور جب خوف واتقاء کی نعمتوں سے تم تہی دامن رہتے ہو ، تو اب معجزات دکھائے جا چکے ہیں ، مگر انکار کرنے والوں نے ہمیشہ انکار ہی کیا ، اور ایماندار لوگوں نے ایمان کی دعوت کو قبول کرلیا ، اس لئے آج اگر تمہارے مطالبوں کو پورا بھی کردیا گیا ، جب بھی تم انکار ہی کرو گے ، تم سے ایمان کی توقع نہیں ، آیات ومعجزات کا مقصد تو یہ ہے کہ تمہارے دلوں میں خوف پیدا ہو تم اللہ سے ڈرو ، اور جب خوف واتقاء کی نعمتوں سے تم تہی دامن رہتے ہو ، تو اب معجزات دکھانے سے کیا فائدہ ؟ ثمود کی قوم کودیکھو ، انہوں نے ہلاکت کے لئے معجزہ طلب کیا ، انہیں اونٹنی کا معجزہ دیا گیا ، ان سے کہا گیا ، اس اونٹنی کا وجود بطور نشانی کے ہے ، اس کی بیحرمتی نہ کرنا ، ورنہ مٹ جاؤ گے ، انہوں نے اس کی کونچیں کاٹ ڈالیں ، نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ کا عذاب آگیا ، کیا تم بھی یہی چاہتے ہو ، کہ قوم ثمود کی طرح مٹ جاؤ ۔ حل لغات : بالایت : خوارق ، معجزات : الرؤیا : حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں شاہد ، یعنی کو رؤیت سے تعبیر کیا ہے ۔ والشجرۃ الملعونۃ : کھانے کی ہر چیز جو مرغوب ہو ، عرب اسے زقوم اور ملعون کہتے تھے ۔