سورة الإسراء - آیت 23

وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ۚ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُل لَّهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اور آپ کے رب نے فیصلہ کردیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ اگر تیرے سامنے دونوں میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو ” اف“ نہ کہہ اور نہ انھیں جھڑک اور ان سے نرم گفتگو کیجیے۔“ (٢٣) ”

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

(ف ١) ان آیتوں میں وہ چیزوں کا ذکر فرمایا ہے ، توحید کا اور والدین کی اطاعت اور آداب کا ، اس لئے کہ ان دونوں میں ایک قسم کی نسبت اور مشابہت کا ، والدین کی پرورش ، ان کی شفقت ومحبت ربوبیت کبری سے مشابہ ہے ، جو شخص والدین کا اطاعت شعار ہے وہ ربوبیت کبری کا بھی پہچان سکے گا ، جس کا نام توحید ہے ، اور جو والدین کا مطیع وفرمانبردار نہیں ، جو عارضی ربوبیت سے غافل ہے ، وہ اصلی رب کا بطریق اولی منکر ہوگا ، یعنی جو خدا پرست ہے ، وہ حقوق انسانی کی نگہداشت کرسکے گا ، اور جس کے دل میں اللہ کا ڈر نہیں ، وہ انسانی فرائض کو کیونکر محسوس کرسکتا ہے ؟ جو انسان کا شکر گزار نہیں ، وہ اللہ کا بھی شکر گزار نہیں ہوسکتا ۔ آیت کا مقصد یہ ہے کہ توحید اصل اصول ہے خدا کا فیصلہ ہے ، عقل کا تقاضا ہے ، اسی طرح والدین کی فرمانبرداری ضروری ہے ، ان کے ساتھ مروت واخلاق لازم ہے ، گستاخی کے کلمات سے احتراز چاہئے ، انہیں ناملائم اور درشت انداز میں مخاطب کرنا جائز نہیں ۔ حل لغات : فلا تقل لھما اف : یعنی کلمہ تحقیر سے انہیں مخاطب نہ کرو ، جس سے والدین اذیت وذلت محسوس کریں ۔