سورة النحل - آیت 67

وَمِن ثَمَرَاتِ النَّخِيلِ وَالْأَعْنَابِ تَتَّخِذُونَ مِنْهُ سَكَرًا وَرِزْقًا حَسَنًا ۗ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اور کھجوروں اور انگوروں کے پھلوں سے بھی، جس سے تم شراب بناتے ہو اور عمدہ رزق بھی دیا بلاشبہ اس میں ان لوگوں کے لیے عبرت ہے جو سمجھتے ہیں۔“

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

(ف2) یعنی اللہ تعالیٰ قلب ماہیت پر قادر ہیں ، وہ چاہیں تو کفر وعناد کو محبت وعقیدتمندی سے بدل دیں ، انکار وکفر کو دم میں ایمان یقین کا لباس پہنا دیں ، وہ بنجر اور شور زمینوں کو زندہ کردیتا ہے خشک کھیت اور باغات بارش کی وجہ سے لہلہا اٹھتے ہیں ، گوشت اور خون میں سے سفید دودھ جیسی لطیف شے پیدا کردیتا ہے ، کھجور اور انگور میں طرح طرح کے مزے اور غذائیت رکھی ہیں ، اسی طرح یہ ممکن ہے کہ وہ دلوں کے خبث کو ایمان کی لطافت سے تبدیل کر دے ، ﴿سَكَرًا﴾ کے معنی عام مترجمین نے شراب کے کئے ہیں اور کہا ہے کہ بعد کی آیات میں اسے منسوخ قرار دیا ہے ، مگر یہاں مشکل یہ ہے کہ ﴿سَكَرًا﴾کے لفظ کو بطور اظہار نعمت کے ذکر کیا ہے اور جو چیز نعمت ہے وہ کبھی حرام نہیں ہو سکتی ، قرآن کی شان کے خلاف ہے کہ کسی حرام ہونے والی چیز کی تعریف کرے ، بائبل میں یہ نقص ہے کہ اس میں بےشمار الفاظ تشبیہات و استعارات کے رنگ میں ایسے موجود ہیں جو مے نوشی پر آمادہ کرتے ہیں اور جن سے معلوم ہوتا ہے کہ شراب کوئی اچھی چیز ہے یہی وجہ ہے کہ اہل کتاب نے کبھی شراب سے احتراز نہیں کیا ۔ مگر قرآن میں ایسا کوئی لفظ موجود نہیں جس میں شراب نوشی کو اچھا شغل قرار دیا ہو ، قرآن کا انداز بیان بالکل اچھوتا اور نہایت لطیف وپاکیزہ ہے ۔ اس لئے ﴿سَكَرًا﴾کے معنی شراب یا مسکر شے کے نہیں ہو سکتے ، ابو عبیدہ (رض) کہتے ہیں اس کے معنی مطلقا طعام کے ہیں جو صحیح ہیں ، علامہ ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ نے اس معنی کی تائید کی ہے اور تائید میں ایک شعر پیش کیا ہے جو کہتا ہے : جعلت اعراض الکرام سکرا یعنی تونے لوگوں کی دعوتوں کو طعام سمجھ کر کھا لینے کا تہیہ کرلیا ہے ۔