سورة الحجر - آیت 88

لَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلَىٰ مَا مَتَّعْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِّنْهُمْ وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِلْمُؤْمِنِينَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” نگاہ ان چیزوں کی طرف ہرگز نہ اٹھاؤ جو ہم نے مختلف لوگوں کو فائدہ اٹھانے کے لیے دی ہیں اور ان پر غم نہ کرو۔ اپنے کندھے ایمان والوں کے لیے جھکا دو“

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

حضور (ﷺ) کی سیرت کے دو پہلو : (ف3) قرآن حکیم کے جس قدر احکام میں حضور (ﷺ) کو مخاطب کیا گیا ہے ، اس کے معنی یہ ہیں کہ حضور (ﷺ) کے عمل کی یہ تصویر ہے ، اور امت کو ان کے اسوہ کی تلقین کی گئی ہے ۔ اس آیت میں حضور (ﷺ) کی سیرت کے دو پہلو بیان کئے گئے ہیں ، ایک تو یہ کہ آپ دنیا کے تکلفات پر ریجھے ہوئے نہیں طبیعت میں انتہاء درجہ کا استغنا ہے ، اور ایک یہ کہ آپ مسلمانوں کے لئے سراپا رحمت ہیں آپ کے دل میں امت کے لئے شفقت کا بےپناہ جذبہ موجزن ہے ۔ غور فرمائیے ، حضور دعوت عام دے چکے ہیں ، مخالفت کی آگ بھڑک چکی ہے ، لوگوں نے ابو طالب سے کہا اپنے بھتیجے کو سمجھا لو ، ورنہ ہم تم سے بھی تعرض کریں گے ، ابوطالب نے آکر حضور (ﷺ) کو حقیقت حال سے آگاہ کیا آپ نے فرمایا چچا اگر وہ میرے داہنے ہاتھ پر آفتاب اور بائیں ہاتھ ماہتاب رکھ دیں ، جب بھی میں دعوت توحید سے نہیں رک سکتا ، کس قدر استغنا ہے قوم سونے چاندی کے ڈھیر نذر کرتی ہے حسین وجمیل رشتے پیش کئے جاتے ہیں مگر حضور آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے ، رحمت ورافت کا یہ عالم ہے ، کہ وہ لوگ جو منافق ہیں ، آپ کو تکلیفیں پہنچاتے ہیں ، ان سے ہر طرح اغماض وچشم پوشی کرتے ، عبداللہ ابن ابی مرتا ہے ، تو آپ پیراہن مبارک تبرک کے لئے بھیج دیتے ہیں ۔