سورة ابراھیم - آیت 47

فَلَا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ ۗ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ ذُو انتِقَامٍ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

پس آپ ہرگز گمان نہ کریں کہ اللہ اپنے رسولوں سے وعدہ خلافی کرنے والا ہے۔ یقیناً اللہ سب پر غالب اور بدلہ لینے والا ہے۔“ (٤٧)

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

خلف وعید اور مسئلہ ندا : (ف ١) اس سے قبل یہ فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ ظالموں کی ظالمانہ حرکات سے غافل نہیں ہے ۔ وہ ضرور ان کو کیفر کردار تک پہنچائے گا ، یعنی وہ لوگ جنہوں نے دنیا کو اپنے گناہوں سے معمور کردیا ہے اور جو یہاں عقوبت الہی سے بچ گئے ہیں ، یہ نہ سمجھیں کہ اللہ کا قانون مکافات ناقص ہے ، اور جب وہ یہاں سزا سے بچ گئے ہیں تو قیامت میں بھی اللہ کی گرفت سے چھوٹ جائیں گے ایسا ہونا ناممکن ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کی زبان سے جو کہلوانا ہے ، ضرور اس کو پورا کرے گا ، ایک دن ضرور ایسا آئے گا ، جب مجرم پابجولاں اس کے سامنے انصاف کے لئے حاضر کئے جائیں گے ، اس وقت ان سب کو ان کی بداعمالیوں کی سزا دی جائے گی ، آگ ان کے چاروں طرف چھا جائیگی اور ان کے چہرے جھلس جائیں گے ۔ ان آیات میں اسی قانون کو وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے اور کہا ہے کہ اللہ نے جو کچھ حشر کے کوائف کے متعلق ارشاد فرمایا ہے ، وہ صرف تخویف نہیں بلکہ حقیقت ہے (آیت) ” فلا تحسبن اللہ مخلف وعدہ رسلہ “۔ سے صاف ظاہر ہے کہ خلف وعید کی صورت میں پیغمبروں کی رسوائی ہے ، وہ چونکہ اللہ کے محبوب ہیں ، اور ان کے ذریعے اسلام پھیلتا ہے ، اس لئے ناممکن ہے کہ وہ اپنی بات کو پورا نہ کر کے انہیں لوگوں کے سامنے ذلیل کرے ، نیز خلف وعید میں یہ بھی عیب ہے ، کہ اس سے علم آلہی کی وسعتوں میں نقص لازم آتا ہے ، اور معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کا علم ہمہ گیر نہیں ، جبھی تو وہ بعض مصالح کی بنا پر اپنے وعدوں کو پورا نہیں کرتا ، اور یہ مصالح وہ ہیں ، جن کا وعدہ کرتے اسے علم نہیں ” اعاذنا اللہ من شرور انفسنا “۔ بات اصل یہ ہے کہ خلف وعید کا عقیدہ عقیدہ ہذا سے لیا گیا ہے ۔ جو جھوٹے خدا پرستوں نے اپنی تنبیات کی پردہ پوشی کے لئے ایجاد کرلیا تھا ، آج بھی اس عقیدہ کی ضرورت اس لئے محسوس ہوتی ہے کہ بعض غلط پیشگوئیاں جو از قبیل خرافات ہیں ، نقد ونظر سے بچ جائیں ، اور آسانی سے ان کے متعلق کہا جاسکے کہ یہ بعض مصالح کی بنا پر خلف وعید میں شامل ہیں درحقیقت اس قسم کا عقیدہ بدترین قسم کا الزام ہے جناب باری پر جسے اسلام کی خدا دوستی ہرگز قبول نہیں کرسکتی ۔ حل لغات : ذوانتقام : اعمال بد کا بدلہ لینے والا ۔ سنا دینے والا ۔ نقمت کے معنی سزا کے ہیں ۔ القھار : غالب ۔ مقرنین : بندھے ہوئے ۔ الاصفاد : جمع صفدا ۔ قید زنجیر ۔