سورة ابراھیم - آیت 21

وَبَرَزُوا لِلَّهِ جَمِيعًا فَقَالَ الضُّعَفَاءُ لِلَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا إِنَّا كُنَّا لَكُمْ تَبَعًا فَهَلْ أَنتُم مُّغْنُونَ عَنَّا مِنْ عَذَابِ اللَّهِ مِن شَيْءٍ ۚ قَالُوا لَوْ هَدَانَا اللَّهُ لَهَدَيْنَاكُمْ ۖ سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا مَا لَنَا مِن مَّحِيصٍ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اور وہ سب کے سب اللہ کے سامنے پیش ہوں گے، کمزور لوگ ان لوگوں سے کہیں گے جو بڑے بنے ہوئے تھے کہ یقیناً ہم تمہارے تابع تھے، کیا تم ہمیں اللہ کے عذاب سے بچانے میں کچھ کام آ سکتے ہو ؟ بڑے کہیں گے کہ اگر اللہ ہمیں ہدایت دیتا تو ہم ضرور تمھاری راہنمائی کرتے، ہم پر برابر ہے کہ ہم جزع فزع یا صبر کریں، ہمارے لیے بھاگنے کی کوئی جگہ نہیں۔“ (٢١)

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

کمزوروں کی فریاد بڑوں بڑوں سے : (ف ٢) جب لوگ اللہ تعالیٰ کے حضور جمع ہوں گے اور اپنے اپنے نامہ اعمال سے آگاہ ہوجائیں گے ، تو اسی وقت زمین کا وہ طبقہ جو ضعفاء اور کمزور لوگوں کا ہے ۔ کبراء اور بڑے بڑے لوگوں سے کہے گا ، ہم تو دنیا میں تمہارے تابع تھے ، جب تم نے عیش تکلیف کی محفلیں آراستہ کیں ، شراب و لے سے شغل کیا تو ہم نے تمہاری تقلید کی ، ہم سمجھے ، جب سمجھدار اور بڑے بڑے لوگ ان باتوں میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھے ، تو واقعی یہ بات جائز ہوگی ، ہم نے بےخوفی سے گناہ کی جانب قدم بڑھائے ، کیا آج تمہارے یہاں شنوائی نہیں ہے ؟ تمہارا اثرورسوخ کیا ہوا ، کیا یہاں رشوت نہیں چلتی ، اور کیا تم ہمیں عذاب سے نہیں بچا سکو گے ، کبراء کہیں گے یہاں ہم اور تم دونوں برابر کے مجرم ہیں ، اس لئے سوائے صبر کے چارہ نہیں ، یہ وہ مقام ہے جہاں بڑے چھوٹے میں کوئی امتیاز نہیں رہتا ، اور سب ایک صف میں کھڑے کئے جاتے ہیں ۔