سورة یوسف - آیت 110

حَتَّىٰ إِذَا اسْتَيْأَسَ الرُّسُلُ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ قَدْ كُذِبُوا جَاءَهُمْ نَصْرُنَا فَنُجِّيَ مَن نَّشَاءُ ۖ وَلَا يُرَدُّ بَأْسُنَا عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” یہاں تک کہ جب رسول ناامید ہوگئے اور انہوں نے خیال کیا ان سے جھوٹ بولا گیا تھا تو ان کے پاس ہماری مدد آئی پھر جسے ہم نے چاہا اسے بچا لیا اور ہمارا عذاب مجرموں سے ٹالا نہیں جا سکتا۔“ (١١٠)

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

انبیاء کی ناامیدی : (ف ١) حق وصداقت کی راہ میں بیشمار آزمائشیں ہیں ، حتی کہ انبیاء علیہم السلام کو بھی آزمایا جاتا ہے ، جب وہ اللہ کے پیغام کو اس کے بندوں کے سامنے پیش کرتے ہیں ، تو مخالفوں کے طوفان بپا ہوتے ہیں ، بغض وفساد کے شعلے خرمن صبر واستقامت پر گرتے ہیں ، اور انسانی بدبختی ومحرومی کا وہ مظاہرہ ہوتا ہے ، کہ ہدایت بھی شرم سے اپنا بچہ لیتی ہے ، بڑے بڑے پاکبازوں کے پاؤں لڑکھڑا جاتے ہیں ، عین اس وقت انبیاء علیہم السلام دل میں سوچتے ہیں کہ یا اللہ تیری نصرتیں کہاں ہیں ؟ تیری شفقتیں ، اور مہربانیاں کیوں جلوہ گر ہو کر ہم بےکسوں کی دستگیری نہیں کرتیں ؟ کیا ہمیں اذیتوں اور تکلیفوں کے لئے تنہا چھوڑ دیا جائے گا اور تیری بخشش وکرم کا ہاتھ ہماری طرف نہیں بڑھے گا ؟ ٹھیک اس وقت مایوسیوں کے ابر سے امید ونصرت کا افتاب طلوع ہوتا ہے اور یہ ثابت کردیا جاتا ہے کہ مجرموں کا سزا سے بہرہ مند ہونا بہر آئینہ قطعی اور یقینی ہے ۔