سورة البقرة - آیت 158

إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِن شَعَائِرِ اللَّهِ ۖ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَن يَطَّوَّفَ بِهِمَا ۚ وَمَن تَطَوَّعَ خَيْرًا فَإِنَّ اللَّهَ شَاكِرٌ عَلِيمٌ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

بلاشبہ صفا اور مروہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہیں چنانچہ جو شخص بیت اللہ کا حج یا عمرہ کرے اس پر صفا مروہ کا طواف کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اور جو شخص خوشی سے نیکی کرے تو بلاشبہ اللہ تعالیٰ قدر دان اور سب کچھ جاننے والا ہے

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اللہ کے شعائر : (ف ٢) صفا اور مروہ دو پہاڑیاں ہیں جن کے درمیان دوڑ ہوتی ہے ، یہ ان معنوں میں اللہ کے شعائر ہیں کہ ان سے مناسک کا وہ حصہ وابستہ ہے جس کی ادائیگی سے عجیب طرح کی للہیت پیدا ہوتی ہے اور اس لئے بھی کہ یہ مقام خلوص و ایمان کے بےپناہ جذبات کے پیدا کرنے میں ممدو معاون ہیں ۔ انہیں اللہ کے شعائر اس لئے کہا کہ ہم مناسک کی روحانیت کو فراموش نہ کریں اور صرف ظاہری رسوم کو صحیح نہ سمجھیں ، بلکہ اس کی روحانیت اور اثر کو برقرار رکھیں ، (آیت) ” لا جناح “ اس لئے کہا کہ پہلے ان دو پہاڑیوں پر بت رکھتے تھے ، صحابہ (رض) عنہم اجمعین نے اس لئے کہ شائبہ شرک نہ ہو ‘ طواف کرنے سے تامل کیا ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ، کوئی مضائقہ نہیں مسلمان مشرک نہیں ہوسکتا ، اس لئے اس انداز بیان سے مضائقہ نہیں مسلمان مشرک نہیں ہو سکتا ، اس لئے اس انداز بیان سے وجوب سعی پر کوئی اثر نہیں پڑتا ، نفی تخرج کی ہے نہ عدم سعی کی ، اس لئے جمہور وفقہا کا مذہب ہے کہ سعی واجب ہے ، عبداللہ بن عمر (رض) ، حضرت جابر (رض) اور جناب عائشہ صدیقہ (رض) ابھی اس طرح گئی ہیں ، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی مذہب ہے ۔ اور اس کی تائید صحیحین کی اس حدیث سے ہوئی ، جس میں لا جناح کی تشریح حضرت عائشہ (رض) نے فرمائی ہے اور بتایا ہے کہ مسلمان انصار اسلام سے پہلے مناۃ کی پوجا اور اعزاز میں سعی کرتے تھے ، جب اسلام لائے تو انہوں نے سعی وطواف میں تامل کیا اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ کوئی مضائقہ نہیں تمہاری نیتیں نیک ہیں ۔ حل لغات : صلوات : جمع صلوۃ بمعنی رحمت