وَأَمَّا الَّذِينَ سُعِدُوا فَفِي الْجَنَّةِ خَالِدِينَ فِيهَا مَا دَامَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ إِلَّا مَا شَاءَ رَبُّكَ ۖ عَطَاءً غَيْرَ مَجْذُوذٍ
” اور لیکن جو خوش بخت ہوئے وہ ہمیشہ جنت میں رہیں گے۔ جب تک آسمان اور زمین قائم ہیں۔ مگر جو تیرا رب چاہے۔ یہ ایسی عطا ہے جو ختم ہونے والی نہیں۔“ (١٠٨)
رحمت الہی کی فراوانیاں : (ف ١) دنیا میں ہمیشہ دو گروہ رہے ہیں ، ایک وہ جنہیں سعادت ازلی سے بہرہ وافر ملا ہے ، اور دوسرا وہ جن کے حصہ میں محرومی شقاوت کے سوا اور کچھ بھی نہیں ۔ اللہ نے ان گروہوں کے لئے حیات اخروی میں اعمال کے موافق وومقام تجویز فرمائے ہیں ۔ ایک مقام غضب جس کا نام جہنم یا دوزخ ہے اور ایک مقام رحمت وعفو ، جو جنت یا فردوس کے نام سے مشہور ہے ان آیات میں اس حقیقت کی تشریح مذکور ہے ، (آیت) ” مادامت السموت والارض “۔ عربی محاورہ ہے جس سے مراد دوام وتائید ہوتی ہے جیسے ” ما جن اللیل ، ماناح الحمام ما سال سبل ، ماطما جر “۔ وغیرہ محرات میں مقصد دوام ہوتا ہے ۔ عذاب کی آیت میں (آیت) ” الا ما شآء ربک “۔ کہنا اور اس کے بعد (آیت) ” فعال لما یرید “۔ کہنا اور ثواب کی آیت میں استثناء کے بعد (آیت) ” عطآء غیر مجذدود “ کہنا یعنی غیر منقطع انعام اس سے اللہ کی ہمہ گیر رحمت ترشح ہوتی ہے ، ظاہر ہوتا ہے کہ اس کا دائر عفو ورحمت بہت وسیع ہے ، اس کی اولی رحمت جہنم کی دھکتی ہوئی آگ کو آن وعد میں سرد کرسکتی ہے ، اس کا غصہ اصلاح وہدایت کے لئے ہے انتقام کے لئے ہرگز نہیں ۔ (آیت) ” الا ما شآء ربک “۔ کا استثناء آیت تعذیب میں موصیلہ معنوں کے لئے ہے ۔ اور آیت تبشیر میں تائید حسرت و جنت کے لئے جیسے (آیت) ” سنقرئک فلا تنسے الا ما شآء اللہ “۔ میں یہ منشاء نہیں کہ حضور وحی والہام کو بھول سکتے ہیں ، دوم نسیان کی تاکید فرمائی ہے ، یعنی خدا ہی چاہئے تو نسیان وسہو وی الہام میں پیدا ہو سکتا ہے ، ورنہ نہیں ، آیت بشارت میں بالکل یہی انداز بیان ہے یعنی سعادت مند روحیں ہمیشہ ہمیشہ جنت میں رہیں گی اور سوا خدا کے اور کوئی قوت انہیں جنت کی نعمتوں سے محروم کرسکے گی ، حل لغات : مجذود : کٹا ہوا ۔ جذ کے معنی کاٹنے اور قطع کرنے کے ہوتے ہیں ، جذاذا ، یعنی ٹکڑے ٹکڑے ۔