سورة ھود - آیت 56

إِنِّي تَوَكَّلْتُ عَلَى اللَّهِ رَبِّي وَرَبِّكُم ۚ مَّا مِن دَابَّةٍ إِلَّا هُوَ آخِذٌ بِنَاصِيَتِهَا ۚ إِنَّ رَبِّي عَلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” بے شک میں نے اللہ پر بھروسہ کیا جو میرا رب ہے اور تمہارا رب ہے۔ کوئی چلنے والا جاندار نہیں مگر اسکی پیشانی اس کے قبضے میں ہے۔ بے شک میرا رب سیدھے راستے پر ہے۔“

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

(ف1) ﴿آخِذٌ بِنَاصِيَتِهَا﴾اصل میں تمثیل ہے تسخیر مخلوقات کی یعنی تمام کائنات اس طرح اللہ کے قبضہ قدرت میں ہے جس طرح کسی جاندار کو سر سے پکڑ رکھا ہو ، ﴿إِنَّ رَبِّي عَلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ﴾سے غرض یہ ہے کہ خدا جس راہ کی جانب اپنے بندوں کو دعوت دیتا ہے حق وصداقت کی وہی راہ ہے ۔ آیت کا مفہوم یہ ہے کہ حضرت ہود (علیہ السلام) نے جب دیکھا کہ قوم دشمن ہے اور نقصان پہنچانا چاہتی ہے تو آپ نے پورے صبر اور استقلال سے مقابلہ کیا ، دعوت وتذکیر کے عمل کو جاری رکھا اور کہا میں تمہاری شرارتوں سے ڈرتا نہیں اللہ پر میرا بھروسہ ہے جو میرا اور تمہارا رب ہے ۔ بات یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام کوچونکہ اپنی صداقت پر یقین کامل ہوتا ہے ، اس لئے کوئی عداوت انہیں دبا نہیں سکتی جس قدر ان کی مخالفت کی جاتی ہے ، ان کا جذبہ حق پسندی ترقی پذیر ہوتا ہے ، ان کے عزم واستقلال میں اور اضافہ ہوجاتا ہے وہ پہلے سے زیادہ قوت کے ساتھ خدا کے دشمنوں کا مقابلہ کرتے ہیں ۔