وَلَئِنْ أَتَيْتَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ بِكُلِّ آيَةٍ مَّا تَبِعُوا قِبْلَتَكَ ۚ وَمَا أَنتَ بِتَابِعٍ قِبْلَتَهُمْ ۚ وَمَا بَعْضُهُم بِتَابِعٍ قِبْلَةَ بَعْضٍ ۚ وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُم مِّن بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ ۙ إِنَّكَ إِذًا لَّمِنَ الظَّالِمِينَ
خواہ تم اہل کتاب کو تمام دلائل دیں لیکن وہ آپ کے قبلہ کی پیروی نہیں کریں گے اور نہ آپ ان کے قبلے کو ماننے والے ہیں اور نہ وہ آپس میں ایک دوسرے کے قبلے کو ماننے والے ہیں اور اگر معلوم ہوجانے کے باوجود آپ ان کی خواہشات کے پیچھے چلیں تو یقینا آپ ظالموں میں سے ہوجائیں گے
(ف ١) ان آیات میں فرمایا کہ یہودی باوجود جاننے کے اعتراض ضرور کریں گے وہ کسی بات پر مطمئن نہیں ہوں گے ، ان کی ذہنیت مسخ ہوچکی ہے اس لئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جماعت بلا کسی خدشہ کے حق کے تابع رہے اور ان کے شبہات اور اعتراضات کی جانب بالکل توجہ نہ کرے ، ورنہ خطرہ ہے کہ خدا کے ہاں ظالم نہ ٹھہرائے جائیں گے ، آیت کا خطاب گو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہے لیکن مراد عام مسلمان ہیں لیکن ان کا منصب انہیں ہر نافرمانی سے روکتا ہے ، وہ بحیثیت نبی ہونے کے خدا کی منشاء کے خلاف کوئی حرکت کر ہی نہیں سکتے ۔ (آیت) ” بل ھم عباد مکرمون لا یسبقونہ بالقول وھم بامرہ یعملون “۔ یعنی گروہ انبیاء خدا کا وہ نیک گروہ ہے جو اس کی مخالفت نہیں کرتا ، بلکہ اس کے اوامر کا ماننے والا ہے ، اس طرز خطاب سے یہ بتانا مقصود نہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اب بھی یہود کی خواہشات کو مان کر خدا کی نافرمانی کا ارتکاب کرسکتے ہیں بلکہ یہ ان کے جذبات کی پاسداری وضوح حق کے بعد اتنا بڑا جرم ہے کہ اگر تم بھی اس کا ارتکاب کرو تو بایں جلالت قدر ہرگز معافی کے مستحق نہیں ہو ، یعنی بحث امکان ظلم سے نہیں ‘ بلکہ جرم کی اہمیت سے ہے کہ کس قدر زیادہ ہے ۔