قَدْ نَرَىٰ تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ ۖ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا ۚ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۚ وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ ۗ وَإِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْ ۗ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُونَ
ہم تمہارے چہرے کو بار بار آسمان کی طرف اٹھتے ہوئے دیکھ رہے ہیں سو ہم تمہیں اس قبلہ کی جانب پھیرے دیتے ہیں جسے آپ پسند کرتے ہیں تو آپ اپنا چہرہ مسجد حرام کی طرف پھیر لیں اور آپ جہاں کہیں ہوں اپنا چہرہ اسی طرف کرلیا کریں۔ اہل کتاب جانتے ہیں کہ یہی ان کے رب کی طرف سے حق ہے اور جو وہ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اس سے غافل نہیں ہے
ملکہ نبوت : (ف ١) ان آیات میں بتایا کہ تحویل قبلہ کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ تم (یعنی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) یہی چاہتے تھے ہم نے تمہاری رضا مندی کو ملحوظ رکھتے ہوئے قبلہ بدل دیا ، بات یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام میں ایک ملکہ نبوت ہوتا ہے جو پہلے سے موجود رہتا ہے اور جس کی روشنی سے انبیاء علیہم السلام استفادہ کرتے ہیں ، یہ سراج نبوت ان کے دماغ میں ہر وقت روشن رہتا ہے ۔ صحف انبیاء اور قبلہ : (ف ٢) اس آیت میں ” تحویل قبلہ “ کو حق کہا ہے اور فرمایا ہے اہل کتاب اس کو جانتے ہیں لیکن انہیں یہ منظور نہیں کہ بیت المقدس کی تقدیس چھین کر بیت اللہ کو دے دی جائے بائیبل میں ” شوکت کا گھر “ بیت الحرام کا ٹھیٹھہ ترجمہ ہے ، دانیال (علیہ السلام) کے مکاشفہ میں ہے کہ میں نے آسمان سے نیا یروشلم اترتا ہوا دیکھا ، جس پر خدا کا نیا نام کندہ ہے ، کیا یہ تبدیل قبلہ کی پیش گوئی نہیں ۔ زبور میں حضرت داؤد (علیہ السلام) اسی گھر کی زیارت کے شوق میں گیت گاتے ہیں ۔ حل لغات : شطر : جانب ، طرف ۔