سورة ھود - آیت 34

وَلَا يَنفَعُكُمْ نُصْحِي إِنْ أَرَدتُّ أَنْ أَنصَحَ لَكُمْ إِن كَانَ اللَّهُ يُرِيدُ أَن يُغْوِيَكُمْ ۚ هُوَ رَبُّكُمْ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اور میری خیر خواہی تمہیں نفع نہ دے گی اگر میں خیر خواہی کرنا بھی چاہوں کہ تمہیں نصیحت کروں۔ اگر اللہ ارادہ رکھتا ہو کہ تمہیں گمراہ کر دے۔ وہی تمہا را رب ہے اور اسی کی طرف تم لوٹاۓ جاؤ گے۔“ (٣٤)

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

غوایت سے مراد ہلاکت ہے ! (ف ١) (آیت) ” ان کان اللہ یرید “۔ الخ یعنی اگر اللہ کے علم میں یہ حقیقت پہلے سے موجود ہے کہ تم بالآخر گمراہی کو ترجیح دو کے ، اور ہدایت کو قبول نہیں کرو گے ، تو بتاؤ کہ تمہاری گمراہی کو ہدایت سے کون بدل سکتا ہے ۔ (آیت) ” یغویکم “۔ کے معنی ہلاکت کے بھی ہو سکتے ہیں اور ادب عربی میں اس کی مثالیں موجود ہیں ۔ قرآن میں ان معنوں کی تائید کرتا ہے جیسا کہ ارشاد ہے ، (آیت) ” فسوف یلقون غیا “۔ ظاہر ہے یہاں گمراہی مراد نہیں ، گمراہی کی عقوبت یا عذاب مراد ہے ، علامہ ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ، (آیت) ” من یغویکم یھلکم بعذابہ “۔ بنی طے کا استعمال یہ ہے کہ مریض کو غاوی کہتے ہیں ۔ جیسا کہ محاورہ ہے ” اصبح فلان غاویا “۔ ، یعنی مریضا : بہرحال یہ انداز بیان ہے ، ورنہ مقصود یہ نہیں کہ اللہ کو گمراہی پسند ہے ، اللہ اگر گمراہی چاہتا ہے تو پھر یہ بعث انبیاء اور ارسال کتب کا کیا مطلب ہے ؟ ۔ حل لغات : جادلتنا : بحث وتکرار ۔ اجرامی : میرا گناہ ۔