سَيَقُولُ السُّفَهَاءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلَّاهُمْ عَن قِبْلَتِهِمُ الَّتِي كَانُوا عَلَيْهَا ۚ قُل لِّلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ ۚ يَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ
عنقریب نادان لوگ کہیں گے کہ جس قبلہ پر یہ تھے اس سے انہیں کس چیز نے ہٹا دیا ہے آپ فرمادیں کہ مشرق و مغرب کا مالک اللہ ہی ہے وہ جسے چاہے سیدھے راستے کی ہدایت دیتا ہے
تعیین قبلہ : (ف1) حضور (ﷺ) کی عادت تھی کہ جب تک صاف وصریح حکم کسی چیز کے متعلق نازل نہ ہوجاتا ، اہل کتاب کی موافقت فرماتے اس لئے کہ وہ بہرحال مشرکین مکہ سے زیادہ راہ راست پر تھے ، اسی بنا پر جب تک قبلہ کی تعیین نہ ہوئی آپ بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نمازیں پڑھتے رہے سترہ اٹھار مہینے تک اسی پر عمل رہا، بعد میں قبلہ کی تعیین ہو گئی اور بتا دیا گیا کہ بوجوہ اب تمام کائنات اسلامی کا مرکز عبادت کعبہ ہے، بیت المقدس نہیں۔ اس طرز عمل سے یہودیوں کو بہت تکلیف ہوئی۔ اب تک تو انہیں یہ حوصلہ تھا کہ ہمارا اور مسلمانوں کا قبلہ مشترک ہے۔ ضرور کسی دن مسلمان یہودیت کو قبول کرلیں گے،مگر اس تبدیلی سے انہیں سخت مایوسی ہوئی۔ دوسری جانب مشرکین مکہ بھی طعنہ زن ہوئے کہ دیکھئے کیا بے اصولی ہے سترہ اٹھارہ ماہ تک تو بیت المقدس کو قبلہ بنائے رکھا ، اب انکار ہے قرآن حکیم نے ان شبہات کے متعلق فرمایا کہ یہ محض سفاہت وعدم تدبر پر مبنی ہیں ، ورنہ صرف تعیین قبلہ کا مسئلہ اتنا اہم نہ تھا کہ یہ اس پر اس قدر معاندانہ توجہ صرف کرتے ، جب کہ اصول میں اور عقائد میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی اور جب کہ اب بھی مسلمان ویسے نماز اور خدا کے فرمانبردار ہیں جیسے کہ پہلے تھے ، کیا صرف جہت کی تبدیلی سے مسلک تبدیل ہوجاتا ہے ؟ کیا صرف اس لئے کہ مسلمان اب کعبہ کو مرکز سمجھتے ہیں تمام خوبیوں سے معرا ہوگئے ہیں ؟ یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم ان اعتراضات کو بیوقوفی سے تعبیر کرتا ہے ، کیونکہ ان میں سے کوئی بات بھی اصول اسلامی پربراہ راست اثرانداز نہیں ہوتی ۔ اصولا جواب یہ دیا کہ خدائے تعالیٰ جہاں تک جہت الکعبہ کا تعلق ہے کسی جہت خاص سے کوئی اختصاص نہیں رکھتا مشرق ومغرب اور شمال وجنوب سب یکساں حیثیت رکھتے ہیں ، البتہ خدا نے کعبہ کو قبلہ عبادت ٹھہرایا تاکہ ہماری نیاز مندیاں ایک نظام میں منسلک ہوجائیں اور مسلمان ہر لحاظ سے وحدت کا جو اس کا فطری خاصہ ہے ، مظہراتم ہو ، نہ اس لئے کہ جہت مغربی مشرق سے زیادہ مقدس ہے ، صراط مستقیم سے مراد یہی ہے کہ وہ چند نفوس ہوتے ہیں جنہیں مسئلہ کی حیثیت پر غور کرنے کی توفیق ارزانی ہوتی ہے ، وہ ہمیشہ مغزوحقیقت کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ، فروع میں الجھ کر ایمان ضائع نہیں کرتے ۔