وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ أَن تُؤْمِنَ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ ۚ وَيَجْعَلُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِينَ لَا يَعْقِلُونَ
اور کسی شخص کے لیے ممکن نہیں ایمان لانا مگر اللہ کی اجازت سے اور وہ پلیدی ان لوگوں پر ڈالتا ہے جو نہیں سمجھتے۔“
(ف2) مشیت واذن الہی کے دو معنی ہیں ایک کا تعلق تکوین سے ہے ایک کا تشریع سے ، اللہ کے نزدیک پسندیدہ تو یہی ہے کہ سب لوگ ایمان لے آئیں ، مگر تکوین میں اس نے اختلاف رائے کو باقی رکھا ہے تاکہ حق وباطل میں امتیاز قائم رہے ۔ اسی طرح اگر ﴿إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ ﴾سے مقصود یہ ہے کہ ایمان کے لئے جہاں تک آسانیوں اور توفیق وتسہیل کا تعلق ہے وہ اللہ کی تکوین کا نتیجہ ہے ، اس لئے وہ شخص جو ان وسائل ہدایت سے محروم ہے ، ہدایت قبول نہیں کرسکتا ، غرض یہ ہے کہ آپ ان لوگوں کی گمراہی پر غم نہ کریں اختلاف رائے مشیت ایزدی ہے ، یہ باقی رہے گا البتہ تلقین ودعوت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے ۔