سورة التوبہ - آیت 117

لَّقَد تَّابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ وَالْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ فِي سَاعَةِ الْعُسْرَةِ مِن بَعْدِ مَا كَادَ يَزِيغُ قُلُوبُ فَرِيقٍ مِّنْهُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ ۚ إِنَّهُ بِهِمْ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” بلاشبہ اللہ نے نبی پر توجہ فرمائی اور مہاجرین و انصار پر بھی، جو تنگی کے وقت ان کے ساتھ رہے، اس کے بعد کہ قریب تھا کہ ان میں سے ایک گروہ کے دل ٹیڑھے ہوجائیں، پھر ان پر توجہ فرمائی۔ یقیناً وہ ان پر شفقت کرنے والا، نہایت رحم کرنے والا ہے۔“

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

(ف1) غزوہ تبوک گرمی کے دنوں میں واقع ہوا ، اس لئے عام صحابہ کرام (رض) عنہم اجمعین میں اضطراب تھا کہ گرمی کی اس شدت میں کیونکر سفر طے ہوگا ، کیونکر ہم اس قابل ہو سکیں گے کہ دشمن سے لڑیں ، پانی بہت کم تھا ، اثنائے سفر میں یہ خطرہ لاحق ہوگیا ، کہیں ہلاک ہی نہ ہوجائیں ، دور دراز سفر ، گرمی کے دن اور دشمنوں سے جہاد بہت لوگوں نے ہمت ہار دی اللہ تعالیٰ نے ارادوں میں استقلال پیدا کیا ، دلوں کو صبر کی توفیق مرحمت فرمائی تو صحابہ میں ایک زندگی پیدا ہوگئی مخلصین کی ایک جماعت حضور (ﷺ) کے ساتھ نکل کھڑی ہوئی اس آیت میں اسی توفیق کا ذکر ہے ۔ ﴿لَقَدْ تَابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ﴾سے غرض یہ نہیں کہ نبی کے پائے استقلال میں بھی معاذ اللہ لغزش پیدا ہوگئی تھی یا ان کی ہمت میں بھی کمزوری اور سستی کا ظہور ہوگیا تھا ، بلکہ محض صحابہ کی حوصلہ افزائی کے لئے عفو کے نام کو ان کے ساتھ ضم کردیا ہے ۔ حل لغات : تاب اللہ علی فلان ، کے معنی التفات ساعی کو مبذول کرنے کے ہیں غرض یہ ہے کہ اللہ نے نبی اور اس کے ساتھیوں کو بہ نگاہ رحمت دیکھا اور ان کے دلوں میں ہمت وقوت پیدا کردی ۔