سورة التوبہ - آیت 107

وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَكُفْرًا وَتَفْرِيقًا بَيْنَ الْمُؤْمِنِينَ وَإِرْصَادًا لِّمَنْ حَارَبَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ مِن قَبْلُ ۚ وَلَيَحْلِفُنَّ إِنْ أَرَدْنَا إِلَّا الْحُسْنَىٰ ۖ وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اور وہ لوگ جنھوں نے مسجد بنائی تکلیف دینے اور کفر پھیلانے اور ایمان والوں کے درمیان تفریق ڈالنے کے لیے اور گھات لگانے کے لیے جنھوں نے اس سے پہلے اللہ اور اس کے رسول سے لڑائی کی اور یقیناً وہ ضرور قسمیں اٹھائیں گے کہ ہم نے بھلائی کے سوا کچھ ارادہ نہیں کیا اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ بے شک وہ جھوٹے ہیں۔“ (١٠٧)

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

مسجد ضرار : (ف ١) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب مدینے تشریف لے گئے تو اسلام مدینے والوں کا قومی مذہب قرار پایا ، توحید کا اجالا گھر گھر پہنچا اور لوگوں کے سینے پر تو اسلام سے جگمگا اٹھے ، منافقین کے لئے یہ ترقی ناقابل برداشت تھی انہوں نے دیکھا کہ مسلمانوں کے دو مرکز ہوگئے ایک قبا اور دوسرا مسجد نبوی ، اور دونوں آباد ہیں ، مومن دونوں جگہ نور ومعرفت سے استفادہ کر رہے ہیں ، اور دونوں جگہوں سے ہدایت ورشد کے چشمے پھوٹ رہے ہیں ، مسجدیں اس زمانے میں ، اسلامیوں کی ہر تحریک خیر وبرکت کی مدار ومحور ہوتی تھیں ، مسجدیں صرف سجدہ گاہیں نہ تھیں ، بلکہ عمل اور جدوجہد کی ہر ابداء یہیں سے ہوتی ، یہ درس گائیں بھی تھیں اور دارالشورے بھی ، حکمت ومعرفت کا منبع بھی اور آستانہ عقیدت وعبودیت بھی ، اس لئے منافقین نے سوچا کہ مسلمانوں کو تکلیف اور نقصان پہنچانے کے ان میں کفر ونفاق پیدا کرنے کے لئے اور انہیں سیاسی سازشوں میں مبتلا کرنے کے لئے اس سے بہتر کوئی صورت ممکن نہیں ، کہ ایک مسجد کی بنیاد ڈالی جائے اور اسے ان ممشؤمہ اغراض کے لئے استعمال کیا جائے ، چنانچہ ابو عامر راہب نے انہیں مشورہ دیا کہ تم ایک مسجد تعمیر کرو ، وہاں اپنے اغراض کے لئے پروپیگنڈا کرو ، جب اس طرح کی جماعت تیار ہوجائے تو مجھے اطلاع دو ، میں قیصر روم سے مل کر تمہیں مدددوں گا ، اور اس طرح چپکے چپکے مدینے سے اسلام کی بڑھتی ہوئی قوت کو ختم کیا جا سکے گا ۔ اللہ تعالیٰ نے نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تمام حالات کی اطلاع دے دی اس مسجد میں نماز پڑھنے سے روک دیا اور کہہ دیا کہ مقصد اور نیت نیک نہیں ، لہذا آپ ان کی حوصلہ افزائی نہ کریں ، نتیجہ یہ ہوا کہ مسجد ڈھا دی گئی ، اور اس طرح مسلمان ایک عظیم فتنہ سے پہنچ گئے ، اس قصے میں انہیں واقعات کی جانب اشارہ ہے ان آیات سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مساجد کی تعمیر سے غرض تقوی اور پاکبازی ہے جو مسجد قبیح اور ناپاک اغراض کے لئے تعمیر کی جائے ، جس سے مسلمانوں میں تفریق پیدا کرنا مراد ہو ، اور اسلام کے خلاف بطور مرکز استعمال کی جائے ، جہاں تقوی وپاکیزگی ناپید ہو ، اور خبث ونفاق کا سرچشمہ ہو ، جسے ایک قوم کا محاذ جنگ بنایا جائے وہ مسجد ، مسجد ضرور ہے ، مسلمانوں کے لئے اس کا وجود ناقابل برداشت ہے ، وہ بالکل احترام کے لائق وقابل نہیں ۔ حل لغات : مرجون : جنہیں ڈھیل دی جائے ، ارصادا : الرصد الاستعدا ، وللترقب یعنی انتظار کرنا اور طیار رہنا ۔ لمسجد اسس علی التقوی ، مسجد نبوی ہے بعض کے نزدیک قباء سے مراد ہے ، ۔ ریبۃ : پھانس وجہ اضطراب ۔